حلب  کی صورتحال دنیا کے لئے باعثِ شرمندگی ہے

حلب سے لاپرواہی کی وجہ سے ہماری نام نہاد مہذب دنیا ایک دفعہ پھر اخلاقی اضمحلال ، بربریت، شرمندگی  اور  ندامت  کی گہرائیوں  میں ڈوب چکی ہے۔ ابراہیم قالن

636060
حلب  کی صورتحال دنیا کے لئے باعثِ شرمندگی ہے

حلب  کی صورتحال دنیا کے لئے  باعثِ شرمندگی ۔۔۔

ترکی اور روس کا تیار کردہ ،حلب میں فائر بندی کا ،سمجھوتہ کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ یہ سمجھوتہ، زیرِ محاصرہ شہر میں مقیم اور بیرل بموں یا پھر ماہر نشانے باز  ملیشیا کے لئے آسان شکار بنے ہوئے  عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں  افراد کی آخری امید  ہے۔

شام کے 5 ہزار سالہ قدیم شہر حلب کا  مغلوب ہونا اور اسد انتظامیہ کے ہاتھوں وحشیانہ انداز میں توڑ پھوڑ اور تباہی و بربادی کا نشانہ بننا دنیا کو شدت سے جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی صورتحال ہونا چاہیے تھی لیکن اس کی جگہ، انسانوں کی دکھ و تکلیف  کو دِکھانے اور سوشل نیٹ ورک کے ذریعے براہ راست نشر  کئےجانے والے، خوفناک مناظر سے  ایک دفعہ پھر لاپرواہی برتی گئی۔ اس لاپرواہی کی وجہ سے  ہماری نام نہاد مہذب دنیا ایک دفعہ پھر اخلاقی اضمحلال ، بربریت، شرمندگی  اور  ندامت  کی گہرائیوں  میں ڈوب چکی ہے۔

حلب میں ڈھائے جانے والے مظالم کے مقابل دنیا کی، کانوں کو بہرہ کر دینے کی حد تک، خاموشی  کا مشاہدہ کرنے کے بعد امینہ سیجیرووچ کاسلی  نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ امینہ سیجیرووچ کاسلی   نے آٹھ یا نو سال کی عمر میں بوسنیا کی جنگ دیکھی اس جنگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاریخ کے اُس سیاہ دور سے گزرتے ہوئے  میں سوچا کرتی  تھی کہ ہو سکتا ہے کہ اگر دنیا کو یہ معلوم ہو جاتا کہ ہم معصوموں کو کیسے  حالات کی نذر کر دیا گیا ہے تو وہ ضرور ہماری مدد کو پہنچتی لیکن میں بہت سادہ تھی کیوں کہ اِس وقت دنیا کو یہ معلوم ہے کہ حلب کی گلیوں میں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ اس نسل کشی کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہی۔

اس وقت جب میں یہ سطور رقم کر رہا ہوں تو شہریوں کے انخلاء کے لئے بسیں حلب میں داخل ہو رہی ہیں اور شہریوں کو لے کر نکل رہی ہیں ۔  وقفے وقفے سے اس انخلاء کو تعطل میں ڈالا جا رہا ہے، ان بسوں  پر حملہ کیا جا رہا ہے یا  پھر ان سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ لیکن جو چیز یقینی ہے وہ یہ کہ حلب کے قتل عام  کو  تاریخ میں بالکل یہودی قتل عام، سراجیوو اور روانڈا  کے قتل عاموں کی طرح  ایک شرمندگی و ندامت کے باب کے طور پر یاد کیا جائے گا۔

ایک سال قبل مردہ  حالت  میں  ترکی کے بحر ایجئین کے ساحلوں  پر پہنچنے والے شامی بچے آئلان کُردی  کی تصاویر نے دنیا بھر میں رائے عامہ کو متحرک کر دیا۔  اس وقت  امید پیدا ہوئی کہ شائد یورپ اور امریکہ کی امیر اور طاقتور دنیا کے صاحب اقتدار شامی مہاجرین اور شام کے اندر گھروں سے بے گھر ہونے والے ہزاروں انسانوں  کے دکھ و تکلیف کو ختم کرنے کے لئے کوئی مداخلت کریں گے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جدید  معاشروں میں ہمدردی اور شفقت  کی مدت بھی نہایت  مختصر ہوتی ہے اور  مسئلہ  حلب ہونے پر حکومتیں   ایک نااہل اور ظالمانہ شکل اختیار کر گئیں۔

یوں دکھائی دے رہا ہے کہ انسانی دکھ درد کی عکاس کوئی بھی تصویر ، کوئی بھی ویڈیو دنیا کو وہ کرنے کی طرف مائل کرنے کے لئے کہ جسے کرنا  درست ہے ناکافی ہے ۔



متعللقہ خبریں