ہماری بہادر عورتیں۔21

آج ہم آپ کو جس بہادر ترک عورت کی کہانی سُنائیں گے وہ ہے "نینے خاتون" جس نے وطن و ملّت کی آزادی کی خاطر اولاد تک کو تج دیا

2142843
ہماری بہادر عورتیں۔21

ترکیہ کے شہر ارض روم میں ایک نمایاں محّل وقوع والی پہاڑی کی چوٹی پر ایک جاہ و جلال والی عورت کا مجسمہ نصب ہے۔

اس مجسمہ کے سر پر لپٹے اسکارف اور لباس  سے پہلی نگاہ میں ہی احساس ہو جاتا ہے کہ اس عورت کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ لیکن جو چیز اس مجسمے کو ایک تمکنت اور شکوہ   بخش رہی ہے وہ اس کا لباس نہیں بلکہ اس کا انداز ہے۔ عورت دونوں بازووں کو اطراف میں کھولے ہوئے ہے۔ اس  کے ایک ہاتھ میں کلہاڑی ہے  اور پشت پر بندھے  کپڑے میں ایک بچہ لِپٹا ہوا ہے۔ عورت ایک ماں کی حیثیت سے بھی اور ایک جنگجو کی حیثیت سے بھی اپنے مقابل کوللکار رہی ہے۔ یہ عورت اپنے طاقتور اور بے خوف  انداز  میں اور ارض روم کی محافظ کی ادا کے ساتھ کہیں دُور نگاہیں گاڑے ہوئے ہے ۔

 

یہ عورت ایک طرف اپنے لمبے لباس، کھُلی  شلوار اور  پیروں میں پہنی چپل کے ساتھ  بالکل اناطولیہ کی عورت دِکھائی دے رہی ہے تو دوسری طرف  کمر پر بندھی بیلٹ سے مرتبے والے ترک فوجی  افسر  کی طرح لگ  رہی ہے۔

 

بہار کا ایک چمکیلے دن تھا اور ارض روم کی سیر پر نکلا ایک گروہ اس عورت کے مجسمے کے سامنے جمع تھا۔ پھر  گروہ کے رہبر نے گروہ کو مجسمے کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔

وہ کہہ رہا تھا "یہ جس مجسمے کو آپ دیکھ رہے ہیں ناں یہ ہماری جانی پہچانی تاریخی شخصیت  "نینے خاتون" کا مجسمہ ہے۔ ہم اسے ترک عورت کی بہادری و جرات کی علامت کے طور پر پہچانتے ہیں۔ اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 19 ویں صدی کے اواخر کی یہ عورت آخر کیسے اس قدر اہم اور ناقابلِ فراموش بن گئی۔

 

نینے خاتون کوئی افسانوی نہیں ایک حقیقی کردار ہے۔ وہ ایک ہیرو خاتون ہے جو 1857 میں ارض روم کے مرکز سے 25 کلومیٹر دُور واقع گاوں 'چیپرلی 'میں پیدا ہوئی۔ اس کی ماں کا نام زلیخا اور باپ کا نام حسین تھا۔ نینے خاتون  16 سال کی عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو ئی۔

 

اپریل 1877 میں "93 حرب" کے نام سے معروف عثمانی۔روسی جنگ شروع ہو گئی۔ اس دور میں نینے خاتون 2 بچوں کی ماں اور ایک   20 سالہ جوان عورت تھی۔ روسیوں نے  ضلع قارس پر قبضے کے بعد ارض روم کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ 8 نومبر 1877 کی رات عزیزیہ قلعے پر  روسی فوجیوں کے قبضے کی خبر فجر کی اذان کے ساتھ پورے ارض روم میں پھیل گئی۔ سُننے والا ہر کوئی ہاتھ میں کلہاڑی آئی تو کلہاڑی لے کر، پھاوڑا  آیا توپھاوڑا لے کر ، ڈنڈا آیا تو ڈنڈا لے کر ترک فوجیوں کی مدد کے لئے محاذ کی طرف دوڑ پڑا۔

 

روایت کے مطابق نینے خاتون کا بھائی بھی محاذ سے زخمی حالت میں گھر واپس آتا ہے اور اسی رات انتقال کر جاتا ہے۔ اس پر نینے خاتون آخری دفعہ اپنے بچے کودودھ پِلاتی، اسے سینے سے لپٹاتی  اور چُوم کر کہتی ہے "تمہیں مجھے دینے والا اللہ ہے اور آج میں تمہیں اسی کے حوالے کر رہی ہوں"۔ یہ کہہ کر اپنا کلہاڑا سنبھال کر دیگر ترک عوام کے ساتھ محاذ کا رُخ کرلیتی ہے۔

 

اگرچہ عثمانیوں کے حوالے سے مجموعی طور پر اس جنگ میں سخت شکست کا سامنا ہوا لیکن  جب بات ارض روم کے عوام کی ہو تو  ان کی بہادری اور جرات مندی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف کے ساتھ رقم ہو گئی۔ جنگ میں ارض روم کے عوام نے نہایت جواں مردی سے دشمن فوج کا سامنا کیا اور اسے پس قدمی پر مجبور کر دیا۔  اس ہمت اور حوصلے کے ساتھ انہوں نے صرف ارض روم کو ہی نہیں بلکہ پورے اناطولیہ کو ایک گھمبیر خطرے سے بچا لیا۔

 

دورِ جمہوریہ میں جب 1934 میں سر نیم  کا قانون جاری ہوا تو نینے خاتون کو "کرک گیوز" کا سر نیم مِلا۔  نینےخاتون 4 بیٹوں اور 2 بیٹوں پر مشتمل 6 بچوں کی ماں تھی ۔ اس کے پہلے 2 بیٹے جنگ عظیم اوّل میں شہید ہو گئے۔

 

خاتون کی شجاعت و دلیری کی یہ داستان 1937 میں پہلی دفعہ صحافی اسماعیل حبیب  سیووک نے '93 حرب' نامی تحریر میں رقم کی اور اس طرح پورا ترکیہ نینے خاتون سے متعارف ہو گیا۔ انٹرویو میں اسے "طویل قامت، سفید بالوں اور سرمئی آنکھوں والی ایک غصیلی عورت" کے طور پر متعارف کروایا گیا۔

بعد میں اس کی شہرت اس قدر پھیل گئی کہ 1952 میں نیٹو مسلح افواج کے کمانڈر امریکی جرنیل 'رِڈوے' نے ارض روم اور اس کے اطراف  میں تحقیقات کے دوران نینے خاتون  سے ملاقات کی اور اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔

 

یہ بہادر عورت 98 سال کی عمر میں نمونیہ کا شکار ہوئی اور 1955 میں وفات پا گئی۔ اسے عزیزیہ شہداء قبرستان میں دفن کیا گیا۔

1952  میں اسے "تھرڈ  آرمڈ فورس  کی نانی" اور وفات سے چند مہینے قبل ترک عورتوں کی یونین  کی طرف سے "سال کی ماں" منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ   نینے خاتون کی بہادری، شجاعت، ایثار اور قربانیوں کے اعتراف میں عزیزیہ قلعے کے محلّ وقوع کے علاقے کو "نینے خاتون تاریخی ملّی پارک" کا نام دیا گیا ہے۔

 

مجسمے کے سامنے جمع گروپ حیرت سے گروپ کے رہبر  کو سُن رہا تھا۔ گروپ رہبر پورے جوش سے بتانا جاری رکھے ہوئے تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ، نینے خاتون کے ساتھ ملاقات میں امریکی جرنیل کے ایک سوال کے جواب میں اُس نے کہا کہ " اُس دور میں میں نے اپنا فرض ادا کیا۔ آج اس بڑھاپے میں بھی اگر ضرورت پڑے تو اپنا فرض زیادہ اچھے طریقے سے اور زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں"۔

آخر میں رہبر نے کہا کہ "کون جانے ہمیں  یہ وطن دلیری و شجاعت کی اور کتنی   گمنام داستانوں کی طفیل ملا ہے"۔

 

جی تو سامعین آج ہم نے آپ کو جس بہادر ترک عورت  کی داستان سُنائی وہ وطن و ملّت  کی آزادی  کی خاطر اولاد تک کو تج دینے والی باوقار اور پُر شجاعت عورت  "نینے خاتون" تھی۔

 



متعللقہ خبریں