ہماری بہادر عورتیں۔04

آج ہم جس بہادر عورت کی بات کریں گے وہ ہے پروفیسر ڈاکٹر جانان دادیورین

2092747
ہماری بہادر عورتیں۔04

"نہیں ہو رہا، نہیں ہو رہا۔۔۔نہیں کر پا رہی ہوں "ملک نے قلم میز پر دے مارا۔ اس کی  جھنجھلاہٹ اس کی ہر حرکت سے عیاں تھی۔

 

جس پروجیکٹ پر ملک  کام کر رہی تھی اس کا بہت عرصے سے ختم ہونا ضروری تھا لیکن کسی طرح وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ شائد اسے یہ پروجیکٹ بند کر دینا چاہیے تھا یا پھر شروع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر منصوبہ اس نے اپنے داد کے ساتھ مِل کر نہ سوچا ہوتا تو ہو سکتا ہے اسے ختم کرنا بہت آسان ہوتا۔ جب اس نے اور اس کے دادا نے یہ پروجیکٹ سوچا تھا تب یہ محض ایک خیال تھا۔ اسے حقیقت بنانے کے لئے نہ تو ان کے پاس امکانات تھے اور نہ ہی معلومات۔ اب اس کے پاس کمپیوٹر تھا، امکانات تھے لیکن اس کے داد نہیں تھے۔

 

اس  سوچ نے اس کے حوصلوں کو اور بھی پست کر دیا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور لائبریری  میں تھوڑی چہل قدمی کرنا اور ذہن کو بہلانا شروع کر دیا۔ اس دوران ایک میز پر پڑے جریدے کا کھُلا صفحہ اس کی توجہ کا مرکز بنا۔ ملک قریبی کرسی پر بیٹھی اور رسالے کو دیکھنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے اسے بازووں کو سینے پر باندھے کھڑی ایک عورت کی تصویر دِکھائی دی جس کے نیچے لکھا تھا 'پروفیسر ڈاکٹر جانان دادیورین'۔

 

اس کے نیچے جانان دا دیورین کے الفاظ رقم تھے جن میں اس نے کہا تھا کہ "کامیابی کی پہلی شرط خیال  بُننا ہے،  خیال  بن گیا تو سمجھیں کہ کام آدھا مکمل ہو گا۔ دوسری شرط اس خیال کے پیچھے دوڑنا، تیسری جیسا کہ اللہ کا بھی حکم ہے پڑھنا، چوتھی منصوبہ بنانا اور پانچویں اپنے سے پہلوں کے کام کی چھان پھٹک کرنا"۔

 

ان الفاظ نے ملک کے ذہن میں دوبارہ سے اس کے داد کے خیال کو تازہ کر دیا۔ یہ الفاظ ملک کی ذہنی حالت سے کس قدر ہم آہنگ تھے۔ یہ جانان دادیورین کون ہے؟اس نے تجسس کے ساتھ مضمون پڑھنا شروع کر دیا۔

 

جانان دادیورین 1985 میں استنبول میں پیدا ہوئی  ۔ 2007 میں حاجت تیپے یونیورسٹی سے فزکس انجینئرنگ میں فارض التحصیل ہونے کے بعد اس نے 2009 میں سابانجی یونیورسٹی  سے میٹیریلز سائنس اینڈ انجینئرنگ  میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد وظیفہ حاصل کر کے 2014 میں امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری  حاصل کی۔ اس عرصے میں اس نے، فزکس، الیکٹرانک، کیمیا، میٹیریئل، میکانک اور طب کے شعبوں سے متعلقہ، ایسے لچکدار اور طے ہونے کے قابل برقی آلات پر تحقیق کی  جنہیں جسم کے اوپر یا جسم کے اندر استعمال کیا جا سکتا تھا۔

 

جانان دادیورین ایک کامیاب سائنس دان تھی لیکن اس کی زندگی کے جس واقعے نے ملک کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ  جانان کے داد کا قلبی ضعف کے سبب اس کی کم سنی میں انتقال کرنا تھا۔ اس حوالے سے ملک اپنے آپ  کو خوش نصیب سمجھ رہی تھی کیونکہ اس نے اپنے دادا کے ساتھ بہت موئثر اور مفید وقت گزارا تھا۔

 

دادا کی وفات نے ننھی جانان کو  ایک خیال سوچنے کی طرف مائل کیا اور اس سوچ  کو عملی شکل دے کر وہ ایک ایجاد کو سامنے لانے میں کامیاب  ہوئی۔

 

یہ ایجاد ،زخموں  پر لگائے جانے والے اسٹکر بینڈ کی طرح نرم اور جلد کے اوپر آسانی سے لگایا جا سکنے والا، ایک  کارڈیئک پَیس میکر تھا۔ اس ایجاد کے وقت جانان کی عمر  28 سال تھی اور پورا امریکہ اسے 'کریزی ترک' کے لقب سے پہچانتا تھا۔ دیگر پَیس میکروں کے مقابلے میں طویل العمر ہونا اور اپنی ضرورت کی توانائی کو خود پیدا کرسکنا اس کے ایجاد کردہ کارڈیئک پَیس میکر کی سب سے اہم خصوصیت تھی۔

 

لیکن جانان دادیورین نے صرف کارڈیئک پَیس میکر کی ایجاد پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ اس کی زندگی میں آنے والا اور اسے قلبی طور پر متاثر کرنے والا دوسرا واقعہ اس کی خالہ کا چھاتی کے کینسر کی وجہ سے وفات پانا تھا۔ اس دفعہ  جانان کی خالہ کی اسکیچ بُک اس کے لئے ذریعہ الہام بن گئی۔ وہ اپنی خالہ کو تو نہیں بچا سکی لیکن اپنی تحقیقی ٹیم کے ساتھ مِل کر اس نے ایک ایسا الٹرا ساونڈ آلہ دریافت کیا جو چھاتی کے کینسر کی تشخیص کرنے کا اہل تھا۔

 

ملک نے جریدے سے سر اٹھایا اور سوچنا شروع کر دیا۔ ایک ترک خاتون سائنس دان اہم ایجادات کر چکی تھی۔ اسے فوربس جریدے  کی " 30 سال سے کم عمر 30 سائنس دانوں " کی فہرست میں شامل کیا گیا ، وہ ہارورڈ یونیورسٹی کی یوتھ اکیڈمی  کی رکن منتخب ہوئی اور ملک اب جا کر اس سے متعارف ہو رہی تھی۔ ملک کو جانان کی جس خوبی نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کی دوسروں کی زندگیوں  میں کارآمد کردار ادا کرنے کی خوبی تھی۔

 

ملک نے مسکرا کر اپنے آپ سے کہا "مطلب یہ کہ ملک خانم ،انسان چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ ایسا ہے تو کیوں بیٹھی ہو اٹھو اور شروع کر دو۔ ابھی کرنے کے بہت کام ہیں"۔

وہ اپنی میز پر واپس آئی اپنے پروجیکٹ پر نگاہ ڈالی اور نہایت خود اعتمادی سے کہا " جی تو ہم کہاں چھوڑا تھا؟" ۔ اس کے بعد ملک نہایت یقین کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھی قلم  ہاتھ میں لیا اور دل ہی دل میں اپنے داد کا اور جانان دادیورین کا شکریہ ادا کر کے دوبارہ سے بھرپور عزم اور حوصلے کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔

 

 

ہم اپنی آج کی گفتگو کو اور اس پروگرام کو ان سب انسانوں کو عطیہ کرنا چاہتے ہیں جو اس معروف ترک خاتون سائنس دان جانان دادیورین کی طرح دن رات محنت کر تے اور انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔



متعللقہ خبریں