ہماری بہادر عورتیں۔02

پہلی مسلمان ترک تھئیٹر فنکارہ "عفیفہ ژالے"

2085605
ہماری بہادر عورتیں۔02

مجھے تھئیٹر بہت پسند ہے۔ میرے نزدیک تھئیٹر کا ماحول انسان کو اپنے  سحر میں لے لیتا ہے۔ مختلف جگہوں سے آنے والے مختلف انسان ایک ڈرامہ دیکھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور تھئیٹر ہال میں اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔

پھر ہال کی بتّیاں گُل ہو جاتی ہیں اور اِکا دُکّا کھانسنے کی آوازیں آنے کے بعد ہر طرف ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ تماشائیوں کی نگاہیں اسٹیج پر لگ جاتی ہیں اور آخر کار پردہ اٹھتا اور کھیل شروع ہو جاتا ہے۔

تھئیٹر سے میری محبت ایک عورت کی مرہونِ منّت ہے اور اس عورت کا نام ہے " عفیفہ"

 

 

اصل میں عفیفہ سے متعارف ہونے سے  پہلے مجھے تھئیٹر سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ ایک دن اپنی  سہیلی 'اصلی' کے اصرار پر تھئیٹر میں گئی۔ یوں تو میں نے کھیل بھی نہایت دلچسپی سے دیکھا لیکن اس دن مجھے متاثر کرنے والا واقعہ کچھ اور تھا۔

کھیل کا پہلا پردہ ختم ہونے پر ہم دونوں سہیلیاں تازہ ہوا میں سانس لینے کے لئے کچھ دیر کے لئے باہر نکلیں۔ ہمارے پاس کھڑا ایک جوڑا کھیل کے مرکزی کرداروں کی اداکاری پر بات کر رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے کان ان کی گفتگو پر لگ گئے۔

 

عورت نے کہا " کتنا اچھا کھیل رہی تھی۔۔۔ میرے خیال میں اس نے کردار کو نہایت کامیابی سے ادا کیا ہے"۔ اس کے ساتھی نے کہا "میں تم سے اتفاق کرتا ہوں ۔ میرے خیال میں ڈرامے کا مرکزی کردار ' عفیفہ ژالے ' کی زندگی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ ہاں ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو اب مجھے زیادہ اچھی طرح سمجھ آ رہی ہے۔ اس حوالے سے دیکھنے سے  کھیل زیادہ دلچسپ لگنے لگا ہے"۔

میں اور زیادہ صبر نہ کر سکی اور کہا کہ معاف کیجیے گا ۔۔۔ کچھ دیر پہلے آپ عفیفہ ژالے نامی کسی شخصیت کی بات کر رہے تھے ۔۔۔ وہ کون ہے؟ عورت  نے کہا عفیفہ ژالے پہلی مسلمان تھئیٹر فنکارہ ہے۔ وہ عثمانی دور کے اواخر اور جمہوریت کے ابتدائی سالوں کی فنکارہ ہے ۔ اس نے ایک مشکل زندگی گزاری" ۔

ان نئی معلومات نے میرے اندر تجسس پیدا کر دیا اور گھر آتے ہی میں نے عفیفہ ژالے کے بارے میں تحقیق شروع کر دی۔

 

عفیفہ ژالے 1902 میں استنبول کے علاقے قاضی قوئے میں پیدا ہوئی۔ وہ بچپن سے ہی اپنے خیالوں کو  حقیقت کا رنگ دینے والی بہادر لڑکی تھی۔  عفیفہ  بڑی ہو کر تھئیٹر فنکارہ بننا چاہتی تھی۔ اس  نے استنبول  کے لڑکیوں کے صنعتی مکتب سے تعلیم مکمل کی۔

 

اس دور میں ترک اور مسلمان عورتوں کا تھئیٹر میں کام کرنا ممنوع تھا۔ اس کے باوجود عفیفہ نے 10 نومبر 1918 کو دارالبداعی یعنی سلطنت عثمانی  کے پہلے فنون لطیفہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اس طرح نوجوان عفیفہ کے خوابوں کا ایک حصّہ پورا ہو گیا یعنی اسٹیج پر نہ بھی آئے تو بھی اس نے اسٹیج کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔

 

عفیفہ کا اسٹیج پر آنے کا خواب22  اپریل 1920 میں پورا ہوا۔  حسین صواد کا "چیتھڑے" نامی کھیل عفیفہ کا پہلا کھیل تھا۔ اصل میں یہ کرداد ایک غیر ملکی فنکارہ نے ادا کرنا تھا لیکن اس کے اچانک کھیل سے نکلنے پر یہ کردار عفیفہ کو دے دیا گیا اور اس طرح عفیفہ "ژالے" کے نام سے پہلی دفعہ اسٹیج پر آئی۔

جب مسلمان ترک عورت کے اسٹیج پر آنے کی خبر پھیلی تو پولیس نے عفیفہ کو گرفتار کر لیا۔ یہی نہیں بلکہ 27 فروری 1921 میں سرکاری گزٹ میں شائع کئے گئے فیصلے سے مسلمان عورتوں کا تھئیٹر میں کام کرنا قطعی ممنوع قرار دے دیا گیا۔

 

عفیفہ کا کام بھی جاتا رہا اور اسٹیج پر آنے کی وجہ سے اس کے باپ نے بھی اسے عاق کردیا۔ عفیفہ سالوں بعد اپنے پہلے اسٹیج کے بارے میں اپنی سہیلی کو یوں رقمطراز ہوئی:

"وہ میری زندگی میں حقیقی خوشی والی پہلی رات تھی۔ کھیل میں  میرا کردار  رونے والا کردار تھا۔ کیا تم یقین کرو گی کہ میں بے تحاشا خوشی کی وجہ سے حقیقت میں رو رہی تھی۔ تالیوں کے شور میں پردہ گِر گیا۔ تماشائی پھول نچھاور کر رہے تھے۔ کھیل کے مصّنف حسین صواد نے مجھے بُلایا اور میری پیشانی چُوم کر کہا کہ ہمیں ایک فدائی کی ضرورت تھی اور وہ فدائی تم ہو"۔

ان سطور کو پڑھنے سے مجھے احساس ہوا کہ عفیفہ نے جو پیشہ اختیار کیا وہ اس کی روح سے کتنا ہم آہنگ تھا۔ بارش کا پہلا قطرہ بننا آسان نہیں اور وہ بھی رکاوٹوں سے بھرے ہوئے معاشرے میں ۔

 

کام چھُوٹنے کے بعد عفیفہ کو مادی مشکلات نے گھیر لیا۔ مفلسی اور بیماریوں نے اس کی زندگی اجیرن کر دی۔ آخر  کا 1923 میں مصطفیٰ  کمال اتاترک کے عورتوں سے تھئیٹر کی پابندی ہٹانے کے بعد اس تھئیٹر کی عاشق نے پوری آزادی اور قلبی سکون کے ساتھ اپنے پیشے کا آغاز کر دیا۔

چند سال بعد عفیفہ  صلاح الدین پنار سے ملی اور دونوں پہلی نگاہ میں ایک دوسرے پر عاشق ہو گئے۔ 1929 میں عاشقوں کے اس جوڑے نے شادی کر لی لیکن یہ ازدواج محض 6 سال تک جاری رہ سکا۔ ازداوجی زندگی ختم ہونے کے بعد عفیفہ کی صحت کی حالت بھی بدستور خراب ہوتی چلی گئی اور آخر کار 24 جولائی 1941 میں محض 39 سال کی عمر میں یہ پہلی تھئیٹر فنکارہ وفات پا گئی۔

 

یہ سب پڑھنے کے بعد میں نے ایک گہری سانس لی اور سوچا کہ "تم بہت بہادر اور جذبے والی عورت تھی لیکن اس دنیا کا بوجھ تمہاری طاقت سے زیادہ تھا"۔ میرا دِل بوجھل ہو گیا۔ بھاری قدموں کے ساتھ اپنی جگہ سے اُٹھی اور رڈیو آن کیا۔ اسے محض اتفاق کہیے یا پھر توجہ کی شدّت ریڈیو پر بھی صلاح الدین پنار کی دھن میں عفیفہ ژالے کے لئے  گایا گیا گیت " ایک بہار کی شام" بج رہا تھا ۔ یوں تو یہ گیت میں متعدد دفعہ سُن چُکی تھی لیکن  اس کی کہانی جاننے کے بعد جیسے اس گیت نے میرے دِل کے تار ہلانا شروع کر دیئے تھے۔

 

آج عفیفہ ژالے کی یاد میں ہر سال  تھئیٹر کے ستاروں کو "عفیفہ ژالے" ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس سال میں نے  بھی، مجھے تھئیٹر سے متعارف کروانے والی سہیلی 'اصلی' کے ہمراہ، عفیفہ ژالے تقسیم ایوارڈ تقریب میں شرکت کی۔ تقریب کے دوران میرے ذہن میں عفیفہ ژالے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے۔

" مجھے اداسی کے ساتھ نہیں محبت کے ساتھ یاد کریں ۔ جب تک تھئیٹر  زندہ ہے میں بھی زندہ ہوں"۔

 



متعللقہ خبریں