عالمی ایجنڈا ۔129

309266
عالمی ایجنڈا  ۔129

ہر ملک کیطرح ترکی کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں بھی وقت کیساتھ ساتھ بعض اصول اور اقدار تشکیل پائی ہیں اور پروان چڑھی ہیں ۔ جمہوریہ ترکی کے قیام کے وقت سے چلے آنے والے اصولوں میں سرفہرست ملک میں امن جہان میں امن کا اصول ہے ۔
جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے اس اصول نے جمہوریہ ترکی کے طاقتور ترین گائیڈ کی حیثیت اختیار کر لی تھی ۔اس اصول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترکی کھبی بھی اور کسی بھی صورت میں جنگ نہیں کرئے گا اور ترکی میں ہمیشہ امن و استحکام قائم رہے گا ۔ اگرچہ ترکی امن کو خواہا ں ملک ہے ۔مجبوری کی حالت میں اور کوئی دوسرا متبادل باقی نہ رہنے کی صورت میں ترکی جنگ کر سکتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کی بنیادی سیاسی پالیسی اندرونی اور بیرونی مسائل کو پر امن طریقوں سے حل کرنےپر مبنی ہے ۔اگر ترکی کی پوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں امن جہاں میں امن کےاصول کی واضع اور سرکاری طور پر پامالی کرنے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے ۔ترکی نے کسی بھی ملک کیخلاف نہ جنگ کی ہے اور نہ ہی جنگ کا فریق بنا ہے ۔اس دعوے کو جھٹلانے کے لیے کوریا جنگ میں فوجی بھیجنے ، قبرص میں فوجی کاروائی کرنے ،شام کی پالیسی اور پی کے کے کیساتھ فوجی جدوجہد کی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن ترکی نے ان کاروائیوں کے دوران بھی ملک میں امن جہاں میں امن کے بنیادی اصول کی سرکاری طور پر پامالی نہیں کی ہے۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
1951 میں کوریا کی جنگ میں ترکی کی شمولیت اعلا ن جنگ نہیں تھا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیطرف سے تین نومبر 1950 میں 337 نمبر کے امن کے لیے یکجہتی کے فیصلے پر عمل درآمد کے دائرہ کار میں ترکی نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ ترکی نے امریکہ اور نیٹو کے حلیف ملک ہونے کی حیثیت سے ان ممالک کو ترجیح دیتے ہوئے سوویت یونین اور چین کی مخالفت کی تھی لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ترکی نے کسی ملک کیساتھ براہ راست جنگ کی تھی ۔
ترکی نے 1974 میں قبرص میں جو فوجی کاروائی کی تھی وہ نہ قبرصی یونانیوں اور نہ ہی اس کی حمایت کرنے والے ملک یونان کیخلاف اعلان جنگ تھی ۔ اس کاروائی کا واحد مقصد قبرصی یونانیوں کے دباؤ اور حملوں کے شکار قبرصی ترکوں کو تحفظ دینا تھا ۔ ترکی نے یہ کاروائی 1960 کے لندن معاہدے کی رو سے ضمانتی ملک ہونے کی حیثیت سے کی تھی ۔
دہشت گرد تنظیم پی کے کے کیخلاف ترکی کی فوجی کاروائی کا مقصد اس تنظیم کی کاروائیوں کو روکنا تھا ۔ اگرچہ اس جدوجہد کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں لیکن یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ترکی کی فوج کی یہ جدوجہد سرکاری جنگ نہیں تھی بلکہ یہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی تھی لیکن اب اس حکمت عملی کی جگہ سیاسی حل کی حکمت عملی نے لے لی ہے ۔
ان مثالوں میں سے جس پر بحث کی جا سکتی ہے وہ ترکی کی شام سے متعلق پالیسی ہے۔ ترکی کی شام کے صدر بشار ال اسد کی حکومت کا تختہ الٹانے کے خواہشمند مخالفین کی حمایت کی پالیسی ترکی کے شام کیساتھ جنگ کا تاثر دے رہی ہے ۔ اس تاثر کو حق بجانب قرار دینے والی سرگرمیوں کیوجہ سے ترکی کی جنگجو پالیسی اپنانے کے دعوے کیے جا سکتے ہیں ۔لیکن یہ دعوے درست نہیں ہیں کیونکہ ترکی شام کیساتھ سرکاری طور پر جنگ نہیں کر رہا ہے اور اس نے اعلان جنگ بھی نہیں کیا ہے ۔ترکی کی شام کیخلاف پالیسی کا اصل مقصداپنے ملک میں معصوم انسانوں کو بے دردی سے ہلاک کرنے والے صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانا تھا ۔ترکی کی اس پالیسی پر اعتراضات کیے جاتے ہیں لیکن ترکی نے سرکاری طور پر اس ملک کیخلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا ہے ۔
جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں ان چند مثالوں کے علاوہ اور کوئی مثال موجود نہیں ہے۔اس کے برعکس ترکی کی خارجہ پالیسی کے پر امن ہونے کے بارے میں متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔سلطنت عثمانیہ کے بعد ترکی اپنے بہت سے علاقوں کو کھو بیٹھا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایریڈنٹسٹ پالیسی نہیں اپنائی تھی ۔میثاق ملی معاہدے کی رو سے ترکی کی حدود میں شامل موصل ،کرکیوک اور مغربی تھریس جیسے علاقوں کے ترکی کی حدود سے باہر رہ جانے کے باوجودترکی نے ان علاقوں کے حصول کے لیے پر تشددکی پالیسی نہیں اپنائی ۔اس سے ملتی جلتی صورتحال کے شکار جرمنی اور بعض دیگر ممالک کیطرح ترکی نے جارحانہ موقف نہیں اپنایا۔ جمہوریہ ترکی میں قائم ہونے والی تمام حکومتوں نے لوزان معاہدے کی رو سے وضع کردہ سرحدوں کا احترام کیا کیونکہ ترکی کسی دوسرے ملک کی چپہ بھر زمین پر نظر نہیں ہے ۔
ترکی اپنے ہمسایہ ممالک یعنی بلقان ،مشرق وسطیٰ ،کاکیشیا حتیٰ کہ پوری دنیا میں امن و استحکام کے قیام کے لیے سر گرم عمل رہا ہے ۔ اس دائرہ کار میں ترکی نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کے فیصلوں کی بھرپور حمایت کی ہے ۔ ترکی یورپی یونین کے رکنیت کے مقاصد میں سے ایک امن کے فروغ کا طلبگار ہے کیونکہ ترکی یورپی یونین کے ایک ملک کی حیثیت سے رکن ممالک کیساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کا خواہشمند ہے ۔ وہ خاصکر یونان ،قبرص اور دیگر یورپی ممالک کیساتھ امن کیساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں