عالمی ایجنڈا ۔87

106775
عالمی ایجنڈا ۔87


ترکی کے عالمی سسٹم میں مقام کے بارے میں بحث و مباحثہ جاری ہے ۔اس کی جڑیں سلطنت عثمانیہ سے پیوستہ ہیں لیکن جمہوریہ ترکی کے قیام سے لیکر ابتک اس موضوع پر بحث ختم نہیں ہو سکی ہے۔یہ بحث ترکی کے سیاستدانوں ،دانشوروں اور کچھ حد تک بیرونی حلقوں کے درمیان جاری ہے ۔ان حلقوں اور نظریات کو تین حصوں کی تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ جدت پسندوں کیطرف سے پیش کردہ نظریات کیمطابق ترکی عالم مغرب اور جدید دنیا سے وابستہ ہے جبکہ اسلام پسند یا روایت پسند ترکی کے عالم اسلام اور مشرق وسطی سےاور اعتدال پسند دانشور ترکی کے مغربی ،جدید اور اسلامی اقدار سے وابستہ ہونے کے نظریات کا دفاع کر رہے ہیں ۔بلاشبہ ان کے علاوہ بھی بعض نظریات موجود ہیں ۔ مثلاً بعض حلقے ترکی کے مارکسسٹ اور لیننسٹ بلاک میں جگہ لینے اور بعض ترکی کے دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی ضرورت کا دفاع کرتے ہیں۔
اس موضوع پر مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا جائزہ
حالیہ چند برسوں میں پیش آنے والے واقعات کیوجہ سے ترکی کے مقام کے موضوع پر بحث زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ 2000 کی دھائی میں ترکی کیساتھ یورپی یونین کی مستقل رکنیت کے مذاکرات شروع ہونے کے بعدرکنیت دینے کی تاریخ کے بارے میں تخمینے لگائے جانے لگے۔اس دور میں ترکی نےاہم جدید اصلاحات کیں حتی کہ یورپی یونین کی وزارت تک قائم کی گئی ۔ترکی سنجیدگی کیساتھ یورپی یونین کیطرفسےدفاع کردہ کائناتی اصولوں کو اپنانے کا خواہشمند ہے ۔وہ جمہوریت ،قانون کی بالا تری ،انسانی حقوق اور آزادیوں،کئی پارٹی نظام اور منڈی اقتصادیات کو اپناتے ہوئے پر امن اور تعمیری خارجہ پالیسی کا مالک بننا چاہتا ہے ۔ یہ جدت پسندی کا دفاع کرنے والوں کےنظریات ہیں ۔مغرب پسند ترکی کی یورپی یونین اور نیٹو جیسی تنظیموں میں شمولیت کو ناگزیر ہدف اور ایک ضرورت سمجھتے ہیں ۔ان کے مطابق ترکی اپنا رخ عالم اسلام کے بجائے یورپ کیطرف موڑنے پر مجبور ہے ۔
یہ نظریہ غلط ہے کیونکہ ناکافی ہے ۔ترکی کا عالم مغرب اور یورپی یونین میں جگہ پانے اور جہاں شمول اقدار کو اپنانے کی تجویز ترکی کے محل وقوع ،تاریخی اور ثقافتی اقدار کو پس ِ پشت ڈالنے کے مترادف ہے ۔ترکی کی معاشرتی ،ثقافتی اور مذہبی اقدار، تاریخی اور جیوپولیٹیک شرائط اسے مشرق وسطی کے علاقے اور عالم اسلام کا رکن بناتی ہیں ۔اس دائرہ کار میں ترکی کی اسلامی تعاون تنظیم میں فعال کردار کی ادائیگی قابل فہم ہے ۔ترکی کی اس تنظیم کی رکنیت عالم اسلام کی ترقی اور جدید راہ پر گامزن ہونے کا سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔ ترکی نے 1970 کی دھائی میں اس موضوع پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا مگر خاصکر 2000 کی دھائی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے برسراقتدار آنے کے بعد اس میدان میں قابل ذکر کوششیں صرف کی ہیں ۔ ترکی یورپی یونین کی اقدار کو اپناتے ہوئے جدیدایکٹر بننے کیساتھ ساتھ عالم اسلام میں بھی ان اقدار کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو کر عالمی ایکٹر کی حیثیت حاصل کر لے گا ۔دراصل اعتدال پسند نظریات کے حامی حلقے بھی یہی چاہتے ہیں ۔1950 کی دھائی میں عدنان میندریس کیساتھ شروع ہو کر 1970 کی دھائی میں سلیمان دیمرل کیساتھ جاری رہنے والے اس اعتدال پسند موقف کو 1980 کی دھائی میں ترگت اوزال کے دور میں بڑی قوت ملی تھی لیکن 2000 کی دھائی میں ایردوان اور گل کی قیادت میں یہ نظریہ بلندیوں پر پہنچا۔اوزال ،گل اور ایردوان نے ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کیساتھ ساتھ عالم اسلام سے قربت کے عمل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ لیڈر ان نظریات کے حامی تھے کہ ترکی کے مقام کو صرف مغربی جہاں شمول اقدار سے ہی نہیں بلکہ ان اقدار کے اپنی ثقافت اور مذہبی اقدار کیساتھ ملاپ سے ہی طاقتور بنایا جا سکتا ہے ۔یہ کہنا ممکن ہے کہ عالمی اور اسلامی اقدار کئی معاملات میں ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں ۔ یورپی یونین اور اسلامی فلسفے کا اہم نکتہ امن کا قیام ہے ۔یورپی یونین کا بنیادی فلسفہ اور اسلام کی دفاع کردہ بنیادی حکمت عملی بین الاقوامی تعلقات میں امن کو اولیت دیتی ہے ۔ ترکی کی خارجہ پالیسی کی بنیاد میں جمہوریہ ترکی کےبانی مصطفی کمال اتاترک کا "ملک میں امن جہان میں امن " کا قول پنہاں ہے ۔ترکی کی خارجہ پالیسی کے اس اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی امن کا دفاع کرنے والے ممالک میں جگہ لینے کا خواہشمند ہے ۔اس ترجیح کا اہم ثبوت یہ ہے کہ ترکی اقوام متحدہ قائم کرنے والے 45 ممالک میں سے ایک ہے یعنی وہ بانی ملک ہے۔ ترکی نے اپنی ملکی حدود کے اند اور باہر ہمیشہ امن کو قائم کرنے کے لیے بھر پور کوششیں صرف کی ہیں ۔
حالیہ چند برسوں میں عمومی تھیوری کے برخلاف نظر آنے والی بہار عرب کے بعد شام اور عراق کے بارے میں پالیسیوں کو عام اصول کے بجائے ایک غیر معمولی اصول کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ترک رائے عامہ علاقے میں جاری جنگوں جھڑپوں اور سراسیمگی سے بے چینی محسوس کرتی ہے اور وہ داعش، النصرا اور القائدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کیخلاف جدوجہد کی حمایت کر رہی ہے اور ترکی میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے والی دہشت گرد تنظیم پی کے کے کے خاتمے کے لیے بھی سرگرم عمل ہے ۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ترکی کیطرف سے ہدف مقرر کیے جانے والے جہاں شمول اصولوں ، ترکی کی پالیسیوں اور اقدار سے مکمل طور پر تضاد رکھتی ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں