دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور پولیس کی شجاعت و جرات کی داستانیں

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ سول سکیورٹی  اداروں کے اہلکاروں اور عوام نے بھی بہادری و شجاعت کی داستانیں رقم کی ہیں

678087
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور پولیس کی شجاعت و جرات کی داستانیں

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور پولیس کا کردار

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ سول سکیورٹی  اداروں کے اہلکاروں اور عوام نے بھی بہادری و شجاعت کی داستانیں رقم کی ہیں۔

اکیس فروری کو پاکستان کے علاقے  چارسدہ میں ہونے والی دہشت گردی میں اگر پاکستان کے بہادر پولیس اہلکار اپنی جانوں پر کھیل کر دہشتگردوں کو ہلاک نہ کر دیتے تو شہری جانی نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا۔

پاکستان کی بہادر پولیس اور عوام نے شجاعت اور دلیری کے ایسے بہت سے کارنامے سر انجام دئیے ہیں کہ جنہوں نے دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کا خاک میں ملا دیا ۔

لیکن یہاں ہم چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ شجاعت ، عزم اور حوصلے کا ایک واقعہ 15 فروری 2017 کو غلنئی پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر پر حملے کے دوران پیش آیا ۔

 حملے میں خاصہ دار فوج کا جوان  تاج عالم دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔ تاج عالم نے پہلے دہشت گرد کو للکارا اور پھر فائر کھول دیا۔ دہشت گرد ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکا اور دھماکہ  ہو گیا۔

بہادر تاج عالم نے دہشت گرد کے ارادوں کو ناکام بنا دیا اور خود جام شہادت نوش کر لیا۔

ایک مثال 13 فروری 2015 کی ہے۔حیات آباد میں امامیہ مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ 30 سالہ عباس ولد محب علی اپنے والد کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا۔

تین حملہ آور مسجد میں داخل ہوئے  جو خود کش بمبار تھے۔ مسجد میں داخل ہو کر حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کر دی عباس نے ایک خود کش بمبار کو دبوچ لیا اور اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا۔ عباس خود بھی دوسرے حملہ آور کے حملے میں شہید ہو گیا۔

محمد اشرف سیال سابق وفاقی وزیر  مذہبی امور حامد سعید کاظمی  کا گارڈ تھا ۔محمد اشرف سیال نے حامد سعید کاظمی کی طرف آنے والی گولیوں کو اپنے سینے پر لیا۔ انہوں نے  جامِ شہادت نوش کیا اور بہادری کی ایک مثال قائم کی۔

29 دسمبر 2015 مردان میں دہشت گردوں نے نادرہ کے دفتر پر حملہ کیا۔ پرویز خان  دفتر کے دروازے کا سکیورٹی گارڈ تھا۔

حملہ آور دفتر کے اندر گھس کر دھماکہ کرنا چاہتا تھا۔ بہادر پرویز خان نے حملہ آور کو دفتر کے دروازے پر روک لیا۔ دھماکے میں پرویز خان خود تو جان سے گیا لیکن بہت سی زندگیوں کو بچا لیا۔

بہادری کی اس داستان میں نویں جماعت کے طالبعلم اعتزاز حسن کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں ۔ 7 جنوری 2014 کو اس 15 سالہ بچے نے خود کش بمبار کو اپنے اسکول مِں داخل ہونے سے روک دیا۔ حملہ آور اسمبلی کے دوران معصوم بچوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس وقت اسمبلی میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے موجود تھے۔ اعتزاز حسن دہشتگرد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح  کھڑا ہو گیا۔ وہ خود تو شہید ہو گیا لیکن ایسی بہادری کی داستان رقم کر گیا کہ جس پر قوم کو ہمیشہ فخر رہے گا۔



متعللقہ خبریں