وزير اعظم نواز شریف کا دورہ برطانیہ

ملاقات ميں دونوں ليڈران نے پاکستان اور برطانيہ کے درميان پارٹنرشب اور دوستی کے گہرے رشتے کے بارے ميں بات چيت

62097
وزير اعظم نواز شریف  کا دورہ برطانیہ

پاکستانی وزير اعظم نواز شريف اور برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے لندن میں ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات ميں دونوں ليڈران نے پاکستان اور برطانيہ کے درميان پارٹنرشب اور دوستی کے گہرے رشتے کے بارے ميں بات چيت کی۔ اس کے علاوہ تعليم، تجارت اور سرمايہ کاری، دفاع اور سلامتی کے شعبوں ميں تعاون بڑھانے پر بھی تبادلہ خيال ہوا۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کی رپورٹ کے مطابق اس ملاقات ميں دونوں رہنماوں نے پاکستان کے مغربی صوبہ پنجاب کے شہر لاہور ميں برطانوی ڈپٹی ہائی کميشن کا ايک نيا دفتر کھولنے پر بھی اتفاق کيا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس مئی ميں پاکستان کی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شريف کا يہ پہلا دورہ برطانيہ ہے۔ اس دورے سے پہلے اسلام آباد کی جانب سے کہا گيا تھا کہ نواز شريف اپنے برطانوی ہم منصب ڈيوڈ کيمرون اور ديگر وزراء سے باہمی مفادات کے معاملات پر بات چيت کريں گے۔
دريں اثناء تيس اپريل کے روز شريف اور کيمرون کے مابين ہونے والی ملاقات سے کچھ ہی دير قبل جاری کردہ ايک رپورٹ ميں برطانوی قانون سازوں نے پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد ميں کٹوتی کی سفارش کی ہے۔ انٹرنيشنل ڈویلپمنٹ کميٹی کی اس رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ اگر اسلام آباد انتظاميہ اس بارے ميں شواہد نہ فراہم کر سکے کہ امداد سے اسلامی انتہا پسندی کو روکنے ميں مدد مل رہی ہے، تو اسے دی جانے والی امداد ميں کمی لائی جانا چاہيے۔ واضح رہے کہ پاکستان وہ ملک ہے، جسے سب سے زيادہ برطانوی مالی امداد وصول ہوتی ہے۔ اس سال بھی اسلام آباد کو 446 ملين پاؤنڈ ملنا ہيں۔
’ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنيشنل ڈویلپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو اسلامی انتہا پسندی سے لڑنا نہيں پڑ رہا، تو اخراجات اتنے زيادہ نہيں ہونے چاہييں۔ برطانوی قانون سازوں نے اس رپورٹ ميں يہ بھی کہا ہے کہ جب تک پاکستان کی سياسی جماعتوں کے ليڈران اپنے حصے کے درست ٹيکسوں کو ادا نہيں کرتے اور ملک ميں ٹيکس جمع کرنے سے متعلق صورتحال ميں بہتری نہيں آتی، اس وقت تک پاکستان کو دی جانے والی امداد ميں اضافہ بھی نہيں کيا جانا چاہيے۔
مغربی ممالک پاکستان ميں انتہا پسندی پر تشويش کا شکار ہيں۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق 2007ء ميں طالبان کی جانب سے پر تشدد کارروائيوں کے آغاز سے اب تک ملک بھر ميں کيے جانے والے دھماکوں اور ديگر حملوں ميں قريب چھ ہزار آٹھ سو افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔
دوسری جانب اسلام آباد حکام اس خون خرابے کے خاتمے کے ليے ان دنوں تحريک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہيں۔ مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کا يہ بھی مطالبہ ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان سے اس سال بين الاقوامی افواج کا انخلاء عمل ميں آ رہا ہے اور پاکستان کو وہاں بھی طالبان سے نمٹنے ميں مدد کرنی چاہيے۔


پاکستانی وزير اعظم نواز شريف اور برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے لندن میں ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات ميں دونوں ليڈران نے پاکستان اور برطانيہ کے درميان پارٹنرشب اور دوستی کے گہرے رشتے کے بارے ميں بات چيت کی۔ اس کے علاوہ تعليم، تجارت اور سرمايہ کاری، دفاع اور سلامتی کے شعبوں ميں تعاون بڑھانے پر بھی تبادلہ خيال ہوا۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کی رپورٹ کے مطابق اس ملاقات ميں دونوں رہنماوں نے پاکستان کے مغربی صوبہ پنجاب کے شہر لاہور ميں برطانوی ڈپٹی ہائی کميشن کا ايک نيا دفتر کھولنے پر بھی اتفاق کيا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس مئی ميں پاکستان کی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شريف کا يہ پہلا دورہ برطانيہ ہے۔ اس دورے سے پہلے اسلام آباد کی جانب سے کہا گيا تھا کہ نواز شريف اپنے برطانوی ہم منصب ڈيوڈ کيمرون اور ديگر وزراء سے باہمی مفادات کے معاملات پر بات چيت کريں گے۔
دريں اثناء تيس اپريل کے روز شريف اور کيمرون کے مابين ہونے والی ملاقات سے کچھ ہی دير قبل جاری کردہ ايک رپورٹ ميں برطانوی قانون سازوں نے پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد ميں کٹوتی کی سفارش کی ہے۔ انٹرنيشنل ڈویلپمنٹ کميٹی کی اس رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ اگر اسلام آباد انتظاميہ اس بارے ميں شواہد نہ فراہم کر سکے کہ امداد سے اسلامی انتہا پسندی کو روکنے ميں مدد مل رہی ہے، تو اسے دی جانے والی امداد ميں کمی لائی جانا چاہيے۔ واضح رہے کہ پاکستان وہ ملک ہے، جسے سب سے زيادہ برطانوی مالی امداد وصول ہوتی ہے۔ اس سال بھی اسلام آباد کو 446 ملين پاؤنڈ ملنا ہيں۔
’ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنيشنل ڈویلپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو اسلامی انتہا پسندی سے لڑنا نہيں پڑ رہا، تو اخراجات اتنے زيادہ نہيں ہونے چاہييں۔ برطانوی قانون سازوں نے اس رپورٹ ميں يہ بھی کہا ہے کہ جب تک پاکستان کی سياسی جماعتوں کے ليڈران اپنے حصے کے درست ٹيکسوں کو ادا نہيں کرتے اور ملک ميں ٹيکس جمع کرنے سے متعلق صورتحال ميں بہتری نہيں آتی، اس وقت تک پاکستان کو دی جانے والی امداد ميں اضافہ بھی نہيں کيا جانا چاہيے۔
مغربی ممالک پاکستان ميں انتہا پسندی پر تشويش کا شکار ہيں۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق 2007ء ميں طالبان کی جانب سے پر تشدد کارروائيوں کے آغاز سے اب تک ملک بھر ميں کيے جانے والے دھماکوں اور ديگر حملوں ميں قريب چھ ہزار آٹھ سو افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔
دوسری جانب اسلام آباد حکام اس خون خرابے کے خاتمے کے ليے ان دنوں تحريک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہيں۔ مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کا يہ بھی مطالبہ ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان سے اس سال بين الاقوامی افواج کا انخلاء عمل ميں آ رہا ہے اور پاکستان کو وہاں بھی طالبان سے نمٹنے ميں مدد کرنی چاہيے۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں