شام کی علاقائی سالمیت اور تحفظ پر ترکی، ایران اور روس کے درمیان مکمل مطابقت

صدر ایردوان ، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ایرانی صدر حسن روحانی نے دارالحکومت انقرہ میں قصر چانکایہ  میں سہہ فریقی  سربراہی اجلاس کے دائرہ کار میں مشترکہ پریس کانفرنس  سے خطاب کیا

1270579
شام کی علاقائی سالمیت اور تحفظ پر ترکی، ایران اور روس کے درمیان مکمل مطابقت

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ  شام کی علاقائی سالمیت اور تحفظ  کے لیے  روس اور ایران کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت پائی گئی ہے۔

 

صدر ایردوان ، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ایرانی صدر حسن روحانی نے دارالحکومت انقرہ میں قصر چانکایہ  میں سہہ فریقی  سربراہی اجلاس کے دائرہ کار میں مشترکہ پریس کانفرنس  سے خطاب کیا۔

 

صدر ایردوان  اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  یہ سربراہی اجلاس شام میں لگی ہوئی  آگ  کو بجھانے کے لحاظ سے   موثر  اورٹھوس اقدام  اٹھانے کے لیے واحد حل کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

ایردوان نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ سلسلہ  آستانہ   اس سلسلے  میں ایک نئی سانس  لے کر آئے گی۔

 

انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں ہمیں شام میں قیام امن کے لئے زیادہ سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے اور مزید اپنی کوششیں صرف کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم دریائے فرات کے مشرق میں دہشت گردی کی دلدل کو خشک کرکے اس مقصد تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

 

ایردوان نے کہا کہ وہ علاقے کی   صورتحال خصوصا ادلب  اور  فرات کے مشرق میں ہونے والی پیشرفت ، سیاسی عمل کے مرحلے اور شامی مہاجرین کے معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

 

"چوبان بے کے ایک  ہسپتال کو نشانہ بنانے والے دہشت گردانہ حملے (اتوار کے روز) نے ایک بار پھر علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم (پی کے کے) کے سفاک چہرے ہ عیاں کردیا ہے۔

 

ایرانی صدر روحانی نے کہا کہ "ایران کا خیال ہے کہ شامی بحران صرف سیاسی ذرائع سے ہی حل ہوسکتا ہے ، اور یہ شامی عوام کی شراکت  ہی سے ممکن ہے۔

 

روحانی، نے کہا کہ "شام میں امریکہ کی فوج رکھنا جائز نہیں ہے۔ امریکی افواج کو جلد از جلد اس خطے سے نکل جانا چاہئے۔"

 

پریس کانفرنس کےآخر میں  روس کے صدر  پوتن نے کہا کہ "ہماری مشترکہ کوششوں نے شام میں استحکام فراہم کیا ہے اور تشدد کو کم کیا گیا ہے۔ ہم نے شام میں افراتفری کے حل کے لئے  مزید ایک قدم اٹھایا ہے۔"

 

صدر رجب ایردوان نے کہا کہ شام میں سب سے بڑا خطرہ  داعش نہیں بلکہ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم وائی پی جی / پی کے کے ہے۔

 

صدر  ایردوان ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ایرانی صدر حسن روحانی، انقرہ میں  قصر چانکایا  میں  سہ فریقی سربراہی کانفرنس کے بعد ترکی ،  روس اور ایران کے رہنماوں نے  مشترکہ پریس کانفرنس  سے خطاب کیا۔

 

 

صدر ایردوان نے  اپنے خطاب میں   شام میں سیاسی حل کے لیے نئی امیدیں  روشن کرنے  کے لیے متعدد اہم اقدامات   اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

 

ایردوان نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کی ناقابل قبول  ہے۔

 

انہوں نے کہا ، "شام کے مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ پی کے کے اور اس کی شاخ  وائی پی جی / پی وائی ڈی ہے۔"

 

صدر ایردوان   نے کہا کہ   جب تک اس ملک میں وائی پی جی / پی وائی ڈی / پی کے کے کی موجودگی جاری رہے گی ، نہ شام اور نہ ہی ہمار ے خطے میں  امن قائم  رہ سکے گا۔ اردوان نے نشاندہی کی کہ ان کا حتمی مقصد شمالی شام میں امن راہداری کا قیام اور ملک کی تقسیم کو روکنا تھا۔

 

دریائے فرات کے  مشرق میں  امن راہداری   ایک  محفوظ   پناہ گاہ ہوگی۔  ہم  کم از کم 2 ملین شامی بھائیوں   کو اس خطے میں بسانے کے خواہاں ہیں۔  نئے رہائشی علاقوں کی تعمیر کرنے کے لئے. ہم ترکی  ہونے کے ناتے یہ ذمہ داریاں اٹھانے  کے لیے تیار ہیں   ۔   ہم شامی  مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے لئے روس اور ایران کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے دیگر ممبروں کے ساتھ بھی کام کرنا چاہتے ہیں۔

 

ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکہ شام میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔

“امریکہ نے شام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ "یہ قابل قبول نہیں ہے ۔

 

روسی صدر پوتن نے اس موقع پر کہا کہ مطابقت  شدہ دستاویزات میں   شام میں دیرپا امن کے لئے کئی ایک شقیں موجود ہیں۔  انہوں نے کہا کہ اب   آئینی کمیٹی  کو   کام کرنا  شروع کردینا چاہیے۔  انہوں  نے کہا کہ  شام میں معاشی اور معاشرتی بحالی کا عمل اب شروع ہو گیا ہے۔



متعللقہ خبریں