پاکستان ڈائری - 10

اس بار ترکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کی اردو سروس کے سلسلہ وار پروگرام  پاکستان ڈائری میں ملاقات کریں پاکستان کی نامور صحافی مدیحہ انور چوہدری سے وہ وائس آف امریکہ کے ایکسٹریمزم واچ ڈیسک کے ساتھ منسلک ہیں

687435
پاکستان ڈائری - 10

اس بار ترکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کی اردو سروس کے سلسلہ وار پروگرام  پاکستان ڈائری میں ملاقات کریں پاکستان کی نامور صحافی مدیحہ انور چوہدری سے وہ وائس آف امریکہ کے ایکسٹریمزم واچ ڈیسک کے ساتھ منسلک ہیں ۔مدیحہ ایڈیٹر ، ملٹی میڈیا رپورٹر و رائٹر ہیں ۔وہ معتدد صحافتی ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔واشنگٹن میں مقیم ہیں ۔ وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جو یروشلم کا سفر کرکے آئی ہیں ۔مدیحہ انور چوہدری راولپنڈی میں ہوئیں اور سعودی عرب کے شہر جدہ میں پلی بڑھیں ۔ابتدائی تعلیم بھی وہاں ہی حاصل کی ۔ایف ایس  سی کے بعد پاکستان آئیں اور جرنلزم میں بیچلرز کیا۔ماس کمیونیکیشن میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔اس کے بعد 2006 میں اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز اے آر وائی نیوز سے کیا ۔

اے آر وائی میں نیوز کاسٹر کے طور پر اپنے فرائض انجام دئے۔دبئی میں مقیم رہیں ۔اس کے ساتھ اسلام آباد لاہور سے ٹی وی رپورٹنگ بھی کی ۔بعد ازاں ایکسپریس ٹی وی کی لانچنگ ٹیم کا حصہ بنیں ۔2008 سے وہ وائس آف امریکہ کے ساتھ منسلک ہیں ۔مدیحہ انور کہتی ہیں ہم 3 بہنیں ہیں ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے ۔میرے والدین نے ہماری تربیت کرتے ہوئے اس چیز کو مدنظر رکھا کہ ہمیں اپنے اسلامی اور معاشرتی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پراعتماد طریقہ سے آگے کیسے بڑھنا ہے ۔

مدیحہ انور چوہدری کہتی ہیں میرے والد چوہدری خورشید انور اب حیات نہیں اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔ وہ بہت سپورٹو تھے میں نے جب انہیں بتایا کہ میں امریکہ جارہی ہوں تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی ۔میری والدہ نورین طلعت عروبہ (پاکستان کی نامور شاعرہ) اور والد خورشید انور نے ہمیشہ ہمیں بہت آزادی دی ۔وہ کہتی ہیں شروع میں وائس آف امریکا کی اردو ٹی وی سروس کا حصہ بننی۔جیو ٹی وی پر  وائس اف امریکا کا خبروں سے آگے پروگرام آتا تھا میں اس ٹیم کا حصہ تھی۔میں نے رپورٹر اینکر پروڈیوسر کے طور پر کام کیا مجھے اور میری ٹیم کو امریکا ایکسپلور کرنے کا بھرپور موقعہ ملا۔بہت سے اہم واقعات و تقریبات کور کی جن میں سے قابل ذکر  ملالہ یوسفزئی کو جب نوبل پیس پرائز ملا اسکی کوریج کی ان کا انٹرویو اور نومبر میں صدارتی انتخابات کور کئے شامل ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

امریکا پاکستان سے بہت مختلف ہے لیکن میں مجھے ایڈجسٹ کرنے میں پرابلم نہیں ہوئی ۔2008 سے 2016 تک مدیحہ وائس آف امریکہ کی اردو ٹی وی سروس کے ساتھ منسلک رہیں ۔وائس آف امریکہ کے مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے پروگرامز پر بطور اینکر اور رپورٹر آتی رہیں ۔اس کے ساتھ وائس آف امریکہ ریڈیو کے لئے بھی کام کیا ۔مدیحہ انور کہتی ہیں اب میں وائس آف امریکہ کے انگلش سروس ایکسٹریمزم واچ ڈیسک کے ساتھ ملٹی میڈیا ایڈیٹر اور رائٹر کے طور پر کام کررہی ہیں ۔اس ڈیسک پر میں پاکستان کو مانیٹر کررہی ہوں ۔

وہ کہتی ہیں امریکا میں خواتین صحافیوں کے لئے کام کرنا قدرےآسان ہے ۔یہاں پردفاترمیں انکوکام کرنےکے یکساں مواقع ملتےہیں ۔جبکہ پاکستان میں ایسانہیں ہےپاکستان میں خواتین کےکام کرنے کوپسند نہیں کیاجاتا۔مجھے بھی شروع میں مخالفت کاسامنا کرنا لیکن میرے والدین کی سپورٹ نے مجھے آگے بڑھنے کا موقع دیا۔پر اب تو پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد صحافت کے ساتھ منسلک ہے حالات یکسر تبدیل ہورہے ہیں ۔لیکن خواتین کو آپ صرف پھولوں کی نمائش کور کرنے تک محدود نا رکھیں ۔انہیں بھی ہر فلیڈ میں انکی پسندکےمطابق کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ 

مدیحہ انور کہتی ہیں امریکہ میں کوئی بیٹ سسٹم نہیں ہے خواتین ہر شعبے میں کام کررہی ہیں ۔پاکستان میں بھی خواتین کو ہر شعبے میں کام کرنے دینا چاہیے ۔مدیحہ کہتی ہیں اب میں انگلش سروس کے ساتھ کام رہی ہوں ۔سئینرز بہت تعاون کررہے ہیں ۔پاکستانی میڈیا میں ایسا نہیں ہوتا اکثر سئینرز ہی جونیرز کی راہ میں روکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ان کی بیٹس چینج کردیتے ہیں بار بار انکو غلطیوں کا احساس دلاتے ہیں ۔لیکن امریکا میں یہ چیز بہت کم ہے یہاں نئے آنے والوں کی مدد کی جاتی ہے ۔

مدیحہ انور چوہدری پہلی پاکستانی خاتون ہیں جو یروشلم کا دورہ کرکے آئی ہیں ۔ان کے پاس پاکستانی شہریت کے ساتھ اب امریکی شہریت بھی ہے انہوں نے امریکی پاسپورٹ پر سفر کیا ۔وہ کہتی ہیں کہ میں بچپن سے سعودیہ عرب میں رہی تو مقدس مقامات سے خصوصی لگاو ہوگیا میرے والد کی بہت خواہش تھی کہ وہ قبلہ اول دیکھ سیکیں۔ان ہی کی خواہش کی تکمیل کی اور میں نے یروشلم کا سفر کیا۔

یہ چار پانچ دن کا ٹرپ تھا ۔میں یروشلم گئی قبلہ اول دیکھا وہاں نمازوں کی ادائیگی کی بہت دلی سکون ملا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام  اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے مرقد دیکھئے ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جائے پیدائش، حضرت یونس علیہ السلام کا علامتی مقبرہ وزٹ کیا ۔ڈیڈ سی بحیرہ مردار بھی گئ ۔مسجد اقصی جانے سے پہلے میں پریشان تھی کہ پتہ نہیں وہاں کیا حالات ہوں گے لیکن وہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نماز پڑھنے آتی ہے۔

یروشلم اسرائیلی کنٹرول میں آتا ہے ۔لیکن قدیم یروشلم میں جہاں مسجد اقصی قائم ہے اسکا انتظام عرب اسرائیلی گارڈز کے پاس ہے ۔وہ کہتی ہیں مجھے سے جب لوگ پوچھتے تھے کہ آپ کہاں سے آئی ہیں تو میں کہتی تھی پاکستانی ہوں اور امریکا سے آئی ہوں تو لوگوں کو بہت خوشگوار حیرت ہوتی تھی ۔وہ کہتی ہیں کہ فلسطینیوں کے لئے طبی اور تعلیمی سہولیات بہت کم ہیں ۔لیکن وہ قدیم یروشلم سے جانے سے تیار نہیں وہ مسجد اقصی کے قریب رہنا چاہتے ہیں ۔

وہ کہتی ہے فلسطینی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے باکستان باکستان کہتے رہے ۔پاکستان کو اپنا بھائی کہتے رہے ۔لیکن میری بات زیادہ اس لئے نہیں ہوسکی وہ انگریزی اردو نہیں بول سکتے  ۔میرے گائیڈ عبد القادر کی مجھے بہت معاونت رہی ۔کچھ اسرائیلی شہریوں  سے بھی بات چیت ہوئی وہ بھی اچھی رہی تاہم ایئرپورٹ پر مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سخت چیکنگ سوالات کی بوجھا میرے پاسپورٹ پرجائےپیدائش پاکستان لکھا تھا  ۔اس لئےوہ یہ جانناچاہتےتھے میرا مقصد سفر کیا ہے ۔بہت طویل انتظار سوالات کےبعدمجھے اسرائیل داخل ہونےکی اجازت ملی۔

مدیحہ انور چوہدری کہتی ہیں کہ یروشلم پہاڑوں پر آباد ہے ۔یروشلم دیکھ کر مکہ مکرمہ کی یاد آجاتی ہے ۔وہاں پر بل بورڈز عبرانی عربی اور انگریزی زبان میں لکھے ہوئے ہوئے ہیں تاکہ سفر کرنے والوں کو آسانی ہو۔وہ کہتی ہیں مسجد اقصی صرف ایک مسجد نہیں بلکہ 36 ایکٹر پر پھیلا ایک احاطہ ہے جس میں مسجد قبلی، مسجد براق،قبتہ الصخرہ سمیت دیگر عمارتیں شامل ہیں ان تمام عمارتوں کا مجموعہ مسجد اقصی اور حرم شریف کہلاتا ہے۔

مدیحہ کہتی ہیں راستے میں مشکلات آتی ہیں چاہیے وہ سفر ہو کیرئیر ہو یا زندگی لیکن اگر ہم اپنے مقصد کی طرف فوکس رہیں تو تمام مشکلات خودبخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں ۔مجھے بہت خوشی ہے جو سفر ہم چند خواتین صحافیوں نے دس سال پہلے پاکستان میں  شروع کیا تھا اب بہت سی نئی خواتین صحافی اس شعبے میں آکر اس سفر کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔



متعللقہ خبریں