ہماری بہادر عورتیں۔19

اگر تمہیں  علم نہیں ہے کہ تم نے کونسے ساحل کے لئے بادبان کھولے ہیں تو تمہارے لئے کوئی بھی ہَوا موزوں ہَوا نہیں ہے

2136908
ہماری بہادر عورتیں۔19

سوزان کو اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا تھا اور یہ فیصلہ کرتے ہوئے اسے ڈر لگ رہا تھا۔  وہ اپنے ذہن سے اس خوف کو نکال نہیں پا رہی تھی کہ اگر اس کا انتخاب غلط ہوا تو پھر؟ وہ اپنے لئے درست انتخاب کرنا چاہتی تھی اور آج اس فیصلے کے لئے اس کے پاس آخری دن تھا۔ جب سوچتے سوچتے  اُکتا گئی تو  اس نے اپنے سامنے پڑے کارڈ اُٹھائے اور بچپن کی طرح ان کارڈ کے پتّوں سے مینار بنانا شروع کر دیا۔ ایک دو دفعہ کارڈ گرنے پر اس نے سوچا کہ مینار بنانا بھی کوئی آسان کام  نہیں۔ لیکن ایک طرف وہ کوشش جاری رکھے ہوئے تھی تو دوسری طرف اس کے کان  ٹیلی ویژن کی طرف لگے ہوئے تھے۔ کمپیئر، ترکیہ کی معروف ترین اور مضبوط ترین عورتوں میں سے گلیر سابانجی کا انٹرویو لے رہا تھا۔

 

ترکیہ میں ہر ایک کی طرح سوزان بھی سابانجی کنبے کو ترکیہ کے بڑے ترین ہولڈنگ مالکان  کی حیثیت سے جانتی تھی اور بس۔  اس کے علاوہ اسے اس دولت مند کنبے کے بارے میں  اور کچھ علم نہیں تھا۔

 

گلیر سابانجی 1955 میں استنبول میں پیدا ہوئی۔ وہ احسان اور یوکسیل سابانجی کی پہلی اولاد اور اپنے کنبے کی تیسری نسل کی فرد تھی۔ بچپن سے ہی اُسے صنعت اور پیداوار سے خاص دلچسپی تھی۔ اس دلچسپی کی وجہ اس کے دادا  حاجی عمر سابانجی تھے۔  حاجی عمر سابانجی 1906 میں پیدا ہوئے اور ضلع قیصری سے ضلع ادانا منتقل ہونے کے بعد یہیں مقیم ہو گئے۔ یہیں سے انہوں نے کپاس کی تجارت  میں قدم رکھا اور جلد ہی متعدد کاروباری شاخوں میں سرگرم فعالیت دِکھانا شروع کر دی۔ گلیر سابانجی ان کی پہلی پوتی تھی اور اپنی پوتی سے  انہیں بہت سے امیدیں تھیں۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ "میری پوتی بڑی ہو گی، پڑھ لکھ کر قابل انسان بنے گی، خود گاڑی چلائے گی اور پتلون پہن کا فیکٹری جایا کرے گی"۔

گلیر سابانجی نے صرف اپنے دادا کا خیال ہی حقیقت نہیں بنایا بلکہ اس سے بڑھ کر بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔

 

اس نے TED امریکن کالج میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد  باسفورس یونیورسٹی کے بزنس منیجمنٹ ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا اور 1978 میں یہاں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ اسی سال اس نے ضلع قوجا ایلی میں لاسا ٹائر فیکٹری لگا کر پیشہ ورانہ منیجمنٹ میں عملی قدم رکھا۔ بعد ازاں 14 سال تک' کورڈ سا' کی ڈائریکٹر جنرل  کے عہدے پر متمکن رہی اور اس کے بعد بحیثیت ہولڈنگ انتظامیہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر  بورڈ کی  رکن کے کام کرتی رہی۔

 

چچا  اور دادا کے بعد سابانجی ہولڈنگ  کی سربراہی پر فائز ثاقب سابانجی کی اچانک وفات کے بعد گلیر سابانجی کے چچاوں شوکت سابانجی اور ارول سابانجی نے ہولڈنگ کا نظام تیسری نسل کو سونپنے کا فیصلہ کیا ۔ اس طرح گلیر سابانجی، ہولڈنگ کی انتظامی کمیٹی کی، سربراہ بن گئی۔

 

سوزان کے لئے یہ بات نہایت حیران کُن تھی۔ ایک ایسی کمپنی جو ترکیہ بھر میں پہچانی جاتی ہے اور فنانس سے لیکر انرجی تک  اور ٹیکنالوجی سے لے کر خوراک تک متعدد شعبوں میں کارکردگی دِکھا رہی ہے اس کا انتظام و انصرام کنبے کے مشترکہ فیصلے سے ایک عورت چلا رہی تھی۔ سابانجی کنبے نے گلیر سابانجی  کو ہولڈنگ کی سربراہی سونپ کر  تیسری نسل کے لئے ترقی کے راستے بھی کھول دیئے تھے۔

 

جب سوزان کا کارڈوں سے بنایا ہوا مینار دوبارہ گِر گیا تو اچانک اُسے احساس ہوا کہ جس جگہ پر وہ مینار بنا رہی ہے وہ ہموار بھی نہیں اور ہِل بھی رہی ہے۔ اس کے بعد اس نے زیادہ ہموار اور مضبوط جگہ پر دوبارہ سے مینار  بنانا شروع کر دیا۔

 

یوں تو گلیر سابانجی کی کامیابیاں گنتے گنتے ختم نہیں ہوتیں۔ محض چند ایک کا بیان کرنا کافی ہو تو بتائے دیتے ہیں کہ 2023 میں ترکیہ کے تیسرے بہترین تعلیمی ادارے ' سابانجی یونیورسٹی' کا قیام گلیر سابانجی کی محنت اور کوشش سے عمل میں آیا۔ وہ ترکیہ کے صنعتکاروں اور کاروباری حضرات کی سوسائٹی TUSIAD کی انتظامی کمیٹی کی پہلی خاتون رکن بھی رہی۔ اقوام متحدہ کے گلوبل کومپیکٹ  کی انتظامی کمیٹی میں بھی فرائض سرانجام دیئے اور 19 سالوں سے فوربس جریدے  کی "دنیا کی مضبوط ترین 100 عورتوں  کی" فہرست میں بھی شامل ہے۔

 

گلیر سابانجی کہہ رہی تھی "اگر تمہیں  علم نہیں ہے کہ تم نے کونسے ساحل کے لئے بادبان کھولے ہیں تو تمہارے لئے کوئی بھی ہَوا موزوں ہَوا نہیں ہے"۔ یہی وہ لمحہ تھا جب سوزان ٹھہری اور اپنی ذات پر نگاہ ڈالی ۔ اب اُسے ہر چیز نہایت واضح دِکھائی دے رہی تھی۔

 

اس کے بعد اس نے ہاتھ میں پکڑے آخری کارڈ کو مینار کی چوٹی پر رکھ کر مینار مکمل کر  دیا۔ احتیاط اور صبر کے ساتھ  کوشش کر کے اور مضبوط بنیاد کا انتخاب کر کے وہ مینار بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ وہ  اپنے آپ پر فخر محسوس کر رہی تھی۔

 

اس کے بعد وہ کھڑی ہوئی اور نہایت پُر اعتماد شکل میں داخلہ فارم میں مضمون کے انتخاب کا خانہ بھرا اور خود کلامی  کرتے ہوئے کہا "اب ٹھیک ہے" ۔ انتخاب کے بعد وہ خود کو زیادہ مطمئن اور خوش محسوس کر رہی تھی۔

 

آج کی ہماری بہادر عورت تھی 'گلیر سابانجی' جس کے ہاتھ میں اس کے دادا نے ایک خیال تھمایا اور وہ اس خیال کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے ساحل کے لئے بادبان کھولتی چلی گئی۔

 



متعللقہ خبریں