عالمی ایجنڈا۔ 103

152758
عالمی ایجنڈا۔ 103

متحدہ امریکہ کی ریاست میسوری کے قصبے فرگوسین میں پولیس کے ایک اہلکار کیطرف سے ایک سیاہ فام باشندے کو ہلاک کرنے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں نے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ان مظاہروں میں اسوقت شدت پیدا ہوئی جب عدالت نے پولیس اہلکار کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے اسے بری کیا ۔نیو یارک اور دیگر شہروں میں عوام نے پولیس اہلکار کیطرف سے طاقت کا بے جا استعمال اور عدالت کیطرف سے اسے تحفظ دینے والے اس فیصلے کیخلاف احتجاج کیا ۔پولیس تمام تر تدابیر کے باوجود مظاہروں کو پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہی اور امریکہ میں پھیلنے والی بد امنی دنیا کی توجہ کا باعث بن گئی ۔
امریکہ بھر میں پھیلنے والے یہ مظاہرے ترک رائے عامہ کی دلچسپی کا بھی باعث بنے کیونکہ ترکی میں بھی 2013 میں استنبول گیزی واقعات کیوجہ سے قسم کی معاشرتی بد امنی پیدا ہوئی تھی ۔گیزی واقعات استنبول سے شروع ہو کر ترکی کے متعدد شہروں میں پھیل گئے تھے ۔مغربی میڈیا اور امریکی ٹیلیویژن چینلز نے ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر اس انداز میں پیش کیا تھا جیسا کہ پورا ترکی آگ کی لپیٹ میں ہے ۔ بظاہر پریس کی آزادی کے طور پر واقعات کو سامنے لایا گیا تھالیکن انھیں غلط انداز میں پیش کرنے کیوجہ سے ترکی نے امریکی اور مغربی میڈیا کیخلاف ردعمل ظاہر کیا تھا ۔مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
۔۔ معاشرتی بد امنی کا سبب بننے والے ان واقعات کا میڈیا کے موقف سے ہٹ ک ان کا اصلی چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ واقعات نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک کی دلچسپی کے بھی حامل ہیں ۔اس کی وجہ ترکی جیسے ممالک کے امریکہ کیساتھ گہرے روابط اور تعاون کی موجودگی اور امریکہ کو درپیش مسائل کا دیگر ممالک کی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب کرنے کے خطرے سے ہے ۔اس کی دوسری وجہ سپر طاقت ہونے کیوجہ سے امریکہ کا قوانین،آزادیوں اور انسانی حقوق جیسی اقدار کے پھیلاؤ کی کوشش کرنے اور ان اقدار کی پامالی کرنے والے ممالک کو سزا دینے سے متعلق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا اپنے ملک کے اندر ان اقدار پر عمل درآمد پوری دنیا کی نظروں میں ہے ۔فرگوسین جیسے واقعات کیوجہ سے دیگر ممالک امریکہ پر دباؤ ڈالنے اور اسے سزا دینے کی طاقت کےمالک نہیں ہیں لیکن ان واقعات سے امریکہ کے امیج اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
ترکی کے نقطہ نظر سے امریکہ کے واقعات امریکہ کے ملکی استحکام کیساتھ ساتھ جہاں شمول اقدار کے لحاظ سے بھی باعث تشویش ہیں ۔اس تشویش کی وجوہات کی چار عنوانات کیساتھ تشریح کی جا سکتی ہے ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی پولیس نے طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق اور آزادیوں کی پامالی کی ہے ۔امریکن ٹیلیویژن پر اکثر دکھائے جانے والے مناظر میں پولیس نے سنگین جرائم سرزد کرنے والے بعض افراد کو عدالت کے حوالے کیے بغیر انھیں ہلاک کیا ہے۔ بلاشبہ پولیس کو حملہ آور کیخلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اس کی بھی حدود ہیں اور بے جا طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ دوسری وجہ کا تعلق پولیس کیطرف سے طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو ہلاک کرنے کی صورت میں عدالت کے فیصلوں سے ہے ۔امریکی عدالت نے حالیہ فیصلے میں پولیس کو معصوم قرار دیا ہے ۔ اس فیصلے سے عدالت اور پولیس کےدرمیان اتحاد نظر آتا ہے ۔حتیٰ کہ اس فیصلے کو عوام کیخلاف سرکاری اداروں کے ناحق موقف کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔اس سے امریکہ کی عدالتی طاقت کی کمزوری کا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ۔ترکی زبان میں ایک محاورہ ہے کہ عدالت ملک کی بنیاد ہے ۔اس بنیاد کی پامالی نہ صرف امریکہ کا مسئلہ ہے بلکہ عدالتی حیثیت کے مالک تمام ممالک کو اس پر تشویش لاحق ہے ۔
فرگوسین جیسے واقعات سے متعلق ایک دیگر اہم نکتے کا تعلق واقعات کی گہرائی سے ہے ۔یعنی یہ مسئلہ وقتی ہے یا ساخت کا مسئلہ ہے ۔ ان مسائل کی اقتصادی وجوہات پائی جاتی ہیں ۔امریکہ میں حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والے اقتصادی بحران نے ملک کے غریب طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس سے جرائم کی شرح میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے ۔امریکہ میں آمدنی کی غیر مساوی تقسیم کا مسئلہ حالیہ بحران کے بعد مزید سنگین شکل اختیار کر گیا ہے ۔ایک دوسرا مسئلہ مہاجرین کا مسئلہ ہے۔امریکہ میں کئی ثقافتی اور کئی نسلی ڈھانچے کے باوجود غیر قانونی مہاجرین کی موجودگی نے ملک کے سماجی اور اقتصاد ی ڈ ھانچے کو منفی لحاظ سے متا ثر کیا ہے ۔اوباما حکومت کیطرف سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیے گئے فیصلوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے بلکہ اس مسئلے کو التوا ء میں ڈال دیا گیا ہے ۔
چوتھی اور اہم ترین وجہ معاشرتی گہرائیوں میں پوشیدہ نسل پرستی کا مسئلہ ہے ۔اگرچہ امریکہ میں قانونی طور پر نسل پرستی کو ختم کیا جا چکا ہے لیکن معاشرتی اور نفسیاتی لحاظ سے اس کا وجود ختم نہیں ہوا ہے ۔نسل پرستی کے مسئلے کی پولیس اور سول تعلقات میں بھی مختلف طریقوں سے عکاسی ہوتی ہے۔عوام میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ امریکہ کے اہم اداروں میں سے پولیس اور قانون عام شہریوں کیساتھ رنگ کو دیکھ کر سلوک کرتا ہے ۔اس دائرہ کار میں انتہائی دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں ۔مثلاً23 جولائی 2009 میں ایک سفید فام پولیس نے ہارورڈ یونیورسٹی کے سیاہ فام پروفیسر کو ان کی رہائش گاہ میں داخلے کے وقت گرفتار کر لیا تھا ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں