عالمی ایجنڈا ۔ 102

144950
عالمی ایجنڈا ۔  102


وزیر اعظم احمد داؤد اولونے متعدد وزراء ، آجروں اور بیوروکریٹس کے ایک بھاری وفد کیساتھ پانچ تا چھ دسمبر یونان کا سرکاری دورہ کیا ۔ یونان کے وزیر اعظم سماراس اور دیگر اعلی حکام کیساتھ مذاکرات کے دوران ترکی اور یونان کے تعلقات کا ہمہ پہلو  جائزہ لیا گیا ۔ترک یونان اعلی سطحی کونسل کے تیسرے اجلاس میں اہم موضوعا ت پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ یونانی حکام کیساتھ ہونے والے مذاکرات کو تین گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔پہلے گروپ میں شامل معاملات کا تعلق اقتصادیات ،تجارت ، مواصلات ،سیاحت اور ثقافت سے تھا ۔ دوسرے گروپ میں شامل معاملات خارجی پالیسی ،سلامتی اور ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت سے متعلق تھے جبکہ تیسرے گروپ کے موضوع کا تعلق توانائی سے تھا ۔
در حقیقت وزیر اعظم کے دورے کا اصل مقصد بھی کے توانائی کے موضوع پر مذاکرات کرنا تھا ۔ ترکی اور یونان کے تعلقات کا ہر معاملہ ایک دوسرے سے پیوستہ ہے اور ہر مسئلہ دوسرے مسئلے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔ توانائی میں تعاون کے لیے طرفین کو پہلے خارجہ پالیسی میں مثبت تعلقات قائم کرنے اور اس کے بعد تمام مسائل کو امن کیساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
ترکی اور یونان کے درمیان مذاکرات کے دوران توانائی کے موضوع کو اولیت دینے کے تقویم کے لحاظ سے دو اہم وجوہات پائی جاتی ہیں ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں توانائی کی سلامتی کے نقطہ نظر سے ترکی کے محل وقوع کو سامنے لانے والی اہم پیش رفت کا مشاہدہ کیا گیا ہے ۔وزیر اعظم احمد داود اولو نے بغداد اور شمالی عراق کی علاقائی انتظامیہ کیساتھ قدرتی گیس اور پٹرول کے موضوع پر معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ۔ایٹلانٹک کونسل کا استنبول میں منعقدہ انرجی اور اکانومی اجلاس جس میں امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے بھی شرکت کی ہےاہمیت کا حامل تھا ۔روس کے صدر ولادیمر پوتن کے سٹریٹیجک اہمیت کےحامل دورہ ترکی کے دوران متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے اورمثبت بیانات دئیے گئے ۔اس تمام پیش رفت کا تعلق بین الا قوامی انرجی، سیاست اور اس سیاست میں ترکی کے محل وقوع سے ہے ۔قدرتی گیس اور پٹرول کے ذخائر نہ رکھنے والا ملک ترکی گیس اور پٹرول پیدا کرنے اور اسے استعمال کرنے والے ممالک کے قریب واقع ہے ۔اس محل وقوع کیوجہ سے ترکی گیس اور پٹرول کی پیداوار اور استعمال کرنے والے ممالک کو اپنی خدمات پیش کر رہا ہے ۔بلاشبہ بین الاقوامی توانائی کی سلامتی میں خدمات انجام دینے والا ترکی اپنی ضروریات کو پورا کرئے گا اور اپنے مفادات کو سامنے رکھے گا ۔
اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ترکی کو متعلقہ ممالک کیساتھ تعلقات کو بڑھانے اور خارجہ پالیسی میں امن و استحکام اور اعتماد کے عنصر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔قبرص اور مشرقی بحیرہ روم کے توانائی کے وسائل سے متعلقہ بحرانوں کو فی الفور حل کرنے میں فائدہ ہو گا ۔وزیر اعظم احمد داؤد اولو کے دورہ یونان کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا ۔ان کے دورے کے دوران دئیے گئے پیغامات بھی مشرقی بحیرہ روم کے توانائی کے وسائل کو مشترکہ مفادات کے لیے استعمال کرنے سے متعلق تھے ۔ اس صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ترکی اور یونان علاقے کے توانائی کے وسائل سے مستفید ہونے اور انھیں دنیا تک پہنچانے کے معاملے میں تعاون کریں گے ۔ توانائی کے شعبے میں تعاون کے دوسرے پہلو کا تعلق روس کی قدرتی گیس کو ترکی اور یونان کے راستے یورپ برآمد کرنے کے منصوبے سے ہے ۔صدر پوٹن نے ترکی کے دورے کے دوران جنوبی رو پائپ لائن کو منسوخ کرتے ہوئے اس کی جگہ ایک نئی قدرتی گیس کی پائپ لائن تعمیر کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس سے ترکی اور روس کے تعلقات کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے ۔ترکی ،روس اور یونان کے درمیان تعمیر کی جانے والی نئی پائپ لائن سےیورپی ممالک کی توانائی کی ضروریا ت کو پورا کیا جا ئے گا ۔ مذاکرات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ترکی اور یونان کو اپنے طور پر نہیں بلکہ مل جل کر موقف اپنانے کی ضرورت ہے ۔دونوں ممالک کا اتحاد و یکجہتی قائم کا عزم اور شعور انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ترکی اور یونان مشرقی بحیرہ روم اور بحیرہ ایجین کے علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک ہیں ۔حتیٰ کہ بحیرہ روم اور بحیرہ ایجین ترکی اور یونان کیطرح عالم اسلامیت اور عالم عیسائیت کو ایک دوسرے سے ملانے والےامن کے کلپ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ امن کے قیام کے لیے ترکی اور یونان کو مثبت خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے مسئلہ قبرص کا پر امن اور پائیدار حل اور ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا لازمی ہے ۔ان رکاوٹوں کو یونان اور قبرصی یونانی انتظامیہ کی طرف سے کھڑا کیا گیا ہے ۔وزیر اعظم احمد داود اولو کے یونان کے دورے کے دوران ان دونوں مسائل کے حل میں بھی مثبت موقف کا مشاہدہ ہوا ہے ۔ یونان کے وزیر اعظم ساماراس نے کہا ہے کہ ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت یونان کے مفاد میں ہے اور وہ اس کی حمایت کرئے گا جبکہ احمد داؤد اولو نے اسطرف توجہ دلائی کہ ترکی یونان کو طاقتور دیکھنا چاہتا ہے۔ دونوں وزراء اعظم کے بیانات کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت آ گیا ہے ۔دونوں ممالک کو گزشتہ صدی کی دشمنانہ پالیسوں کو ترک کرتے ہوئے مثبت پالیسیاں اپنانے کے لیے سر گر م عمل ہو جانا چاہئیے ۔اگرچہ وزیر اعظم داؤد اولو کا دورہ یونان انتہائی کامیاب رہا ہے لیکن کئی سالہ مسائل کو قلیل مدت میں حل کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہئیے لیکن یہ دورہ ایک مثبت دور کا آغاز ہو سکتا ہےاور توانائی جیسا سٹریٹیجک موضوع مسائل کو دور کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اب وقت ہی یہ ثابت کرئے گا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں