دین اور معاشرہ ۔ 19

171848
دین اور معاشرہ ۔ 19


دین اور معاشرہ نامی ہماری آج کی قسط میں تقریباً تمام تر آسمانی دینوں میں موجود حج کے عمل درآمد اور اس کے معاشی فوائد پر بات کرنے کی کوشش کریں گے۔
دینی بنیادی معاملات میں سے ایک حج ہے۔ دینوں میں مختلف نامو ں سے یاد کیے جانے کے باوجود کیفیت کے طور پر اس میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر مقدس قبول کردہ مقامات کی زیارت کرنے اور وہاں پر بعض عبادتوں اور احکامات کو پورا کرنے سے انسان اپنے مقصد کو پا لیتا ہے۔ اگر سماجی لحاظ سے دیکھا جائے تو مقدس مقامات کے ایک سماجی مذہبی زندگی کے مرکز اور انسانی زندگی کو رخ دینے والے اور اسے بامعنی بنانے والے مقامات ہیں۔چونکہ مقدس مقامات الہی اور دنیاوی مقامات کے درمیان تعلق اور دوسرے معنوں میں انسان اور اللہ تعالی کا قریبی رابطہ ہونے والے مقامات ہیں۔ جہاں پر انسان اپنے آپ کو خدائی سکون میں محسوس کرتا ہے۔
دین اسلام میں حج کا ماضی حضرت ابراھیم کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت ابراھیم ؑ نے خانہ کعبہ کو اس کی پرانی بنیادوں پر تعمیر کیا تھا۔بعد میں اللہ تعالی نے انہیں خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے اور قربانی دیتے ہوئے خد ا کی وحدیت کا پیغام دینے اور گناہوں سے اپنے آپ کو پاک کرتے ہوئے تقوی تک رسائی کے لیے انسانوں کو حج کی سعادت حاصل کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس خدائی حکم کے ساتھ خانہ کعبہ کی ہر برس زیارت کا موقع حاصل کیا گیا ہے۔میدان عرفات میں معینہ مدت تک قیام کرنا اور اللہ کی راہ میں جانور کی قربانی دینا حج کے فریضوں کے اہم عناصر میں شامل ہیں۔ حج کی ادائیگی سال میں ایک بار ہوتی ہے۔ دین میں دکھائے گئے مقامات اور طرائق اور وقت کے مطابق حج ادا کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مختلف عمل درآمد کے ساتھ ایک جیسے مقصد تک رسائی نا ممکن ہے۔ دیگر عبادتوں کی طرح حج کی عبادت میں بھی بنیادی مسئلوں کو تبصرے کرتے ہوئے ان میں رد و بدل کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ حج علامتی پہلو کافی مضبوط ہونے والی ایک عبادت ہے۔ تصوف، صفہ مروہ چوٹی کے بیچ پیدل چلنا، میدان ِ عرفات میں کچھ مدت تک قیام کرنا اور شیطان کو کنکریاں مارنا وغیرہ تمام تر علامتی مناسک ہیں۔ظاہری طور پر نمایاں برتاؤ اور عمل درآمد کا تاثر دینے والا حج، درحقیقت مختلف معنوی اور روحانی تربیت کا موقع فراہم کرنے والے مختلف مناسک کا مجموعہ ہے۔ حج اور عمرے میں انسانی روح کے اللہ تعالی کے حضور میں پیش ہونے کی بنا خانہ کعبہ اصل ہدف تصور نہیں کیا جاتا۔ شاید یہ لا متناہیت اور روحانی ماحول میں داخل ہونے کا ایک منبع یا پھر آغاز ہے۔ یہ مقصد سے ہٹ کر ذریعہ ہے۔ بیرونی طرف سے جائزہ لینے سے علامتی شکل میں دکھائی دینے والے حج کے ہر مناسک اور فرائض کی ماہیت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور ان میں مومن حضرات کو شعور دلانے کا پہلو پایا جاتا ہے۔ حج کے دوران ادا کردہ مناسک پر علیحدہ علیحدہ بات کی جا سکتی ہے۔
خاصکر احرام، خانہ کعبہ کے گرد طواف، کالے پتھر پر تراشا گیا محبت کااظہار، صفا اور مروہ کے درمیان پیدل مارچ، عرفات میں انتظار، مزدلفہ میں کنکریاں جمع کرنا، حضرت ابراھیم کے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے مقام یعنی منا اور قربانی دینے کی طرح کے عمل درآمد سمیت ہر چیز خصوصی مفہوم کی حامل ہے۔
اس دوران فرد اور معاشرے کے تسکین پانے کا ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔ اس عبادت کی وساطت سے اللہ تعالی اپنی مخلوق کو تقویت دیتا ہے، انہیں حکمت اور روحانی صحت اور سماجی تعاون جیسی خوبیوں سے سرفراز کرتا ہے۔ جسمانی طور پر ادا کردہ نماز اور روزہ رکھنے سے انسانی نفس کی تربیت کا مفہوم پیش پیش تصور کیا جاتا ہے تو مال و جائداد سے دی گئی زکواۃ، صدقہ اور قربانی کی طرح کی عبادتیں باہمی تعاون اور بھائی چارے کے احساسات کو تقویت بخشتی ہیں۔ جسمانی اور مالی عبادتوں ان تمام خصوصیات کا وجود نمایاں ہے۔
مختصراً حج، دنیا کے ہر گوشے سے مسلم امہ کو ایک ہی مقصد کے ساتھ یکجا کرنے اور اس طرح اجتماعی شعور کے قیام کا موقع فراہم کرنے والا ایک کائناتی عمل ہے۔ لسان، رنگ، نسل، مملکت، شہریت، ثقافت، معاشی صورتحال مختلف ہونے کے باوجود عازمین حج ا یک ہی جذبے اور مقصد کے دائرہ کار میں یکجا ہونے کے احساس سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ یہ یک وجود ہوتے ہوئے شعور حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح حج مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق اور رابطے کا ایک نایاب موقع ہے۔ مختصر مدت میں مشترکہ احساسات، جذبات اور مقصد کے ساتھ کسی خفیہ حوصلہ افزائی کی بدولت انسانوں کا یک ہی معاشرے کے فرد ہونے کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ زندگی بھر کےدوران فراموش نہ کی جانے والی دوستی کے بیج حج کے دوران بوئے جاتے ہیں۔ اس طرح حج بین الاقوامی امن، یکجہتی اور تعاون کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہوئے نطریاتی تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی حاصل کرتے ہیں۔ مسائل کا مل بیٹھ کر حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان پہلوؤں اور خوبیوں کی بدولت حج سماجی سالمیت اور تعاون کا ایک اہم ترین موقع ہے۔
اگر ہم اس موضوع کا خلاصہ پیش کریں تو حج کے ایک جانب اللہ پر ایمان، واحدیت پر یقین، حضرت محمد ﷺ پر ایمان، آخرت پر یقین کی طرح کے بنیادی عقائد کو پختگی دلانے کے ایک اہم موقع اور وسیلہ ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں میں تقوی، صبر، محبت، احترام، بھائی چارے، قربانی، اور سخاوت کی طرح کی اخلاقی خوبصورتیوں اور خوبیوں سے سر شار ہونے کا امکان فراہم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے حج، عقائد، عبادت اور اخلاق کے اسباق کو تقویت دینے والے کسی پروگرام کی خصوصیت کا حامل ہے۔
عصر حاضر میں کئی ایک عبادتوں کےمفہوم کو محض ان کے طریقہ ادائیگی کےساتھ بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا تھا کہ ہر عبادت کا روحانی پہلو پایا جاتا ہے۔ اور اس کے معاشرے پر مثبت اثرات بھی موجود ہوتے ہیں۔اس صورتحال کے عملی جامہ نہ پہننے تک ہماری عبادتیں اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتیں۔لہذا ادائیگی حج کے لیے جانے والا شخص مناسک ِ حج کی کتب کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ و دماغ کو بھی استعمال کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں طرح طرح کے مظالم، شدت ، دباؤ اور تفریق بازی نے اسلامی معاشرے کو اپنی زد میں لے رکھا ہے۔ ہمیں ان برے حالات کے اسباب پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

 

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں