دی وانڈرنگ فالکن کے مصّنف وفات پا گئے

افسانوی مجموعے دی وانڈرنگ فالکن کے مصّنف جمیل احمد اکیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے

129821
دی وانڈرنگ فالکن کے مصّنف وفات پا گئے

جمیل احمد ،ایک بیوروکریٹ رائٹر جنہوں نے چند سال پہلے ادبی کامیابیاں حاصل کیں 81 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔
ان کی نماز جنازہ سوموار کے روز ادا کی گئی اور اس کے بعد H-8 قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
ریٹائرڈ بیوروکریٹ جمیل احمد کو اپنے افسانوں کے مجموعے 'دی وانڈرنگ فالکن'The Wandering Falcon' کی اشاعت سے شہرت حاصل ہوئی اور یوں انہیں پاکستان میں ایک مختصر لیکن بہت جاذب ادبی دنیا میسر آئی۔
دی وانڈرنگ فالکن ایک افسانوی مجموعہ ہے جو 'طور باز ' نامی ایک لڑکے کے گرد گھومتا ہے۔ طور باز کے معنی سیاہ فالکن کے ہیں، طور باز پاکستان ، ایران اور افغانستان کے قبائلی علاقے میں قبائل کے درمیان گھومتا پھرتا رہتا ہے۔
یہ کتاب ،مصّنف کے آخری لمحات میں ایک افسانوی مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کر نے کی وجہ سے شائع ہوئی۔
مصنفّہ اور ایک بُک سٹور کی مالکہ عائشہ راجا نے اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اور ادبی دنیا سے متعلق دیگر افراد نے سال 2010 میں ایک افسانوی مقابلے کے اہتمام کا فیصلہ کیا۔
عائشہ راجا نے کہا کہ " مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب جمیل احمد کا اسکرپٹ ہمارے پاس پہنچا تو اسکرپٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ گزر چکی تھی۔ لیکن اسکرپٹ اس قدر دلچسپ تھا کہ میں اور میری کولیگ فائزہ ایس خان نے اسے مقابلے میں شامل کر لیا۔ بعد میں یہ کتاب بھارت ، برطانیہ اور امریکہ سے شائع ہوئی"۔
ایک ادبی شخصیت آصف فرخّی نے 'دی وانڈرنگ فالکن ' کو تحقیق کا ایک غیر معمولی کام قرار دیا ہے۔
فرخّی نے کہا کہ "اگرچہ میں شخصی طور پر جمیل احمد کو نہیں جانتا لیکن ان کی تصنیف سے آسانی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں موضوع پر پوری گرفت حاصل تھی اور وہ جانتے تھے کہ الفاظ کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ کاش کے انہیں مزید لکھنے کی مہلت ملتی"۔
جمیل احمد نے اپنے بیوروکریٹ کیرئیر کے دوران قبائلی علاقے میں خدمات سرانجام دیں جس کی وجہ سے وہ اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھے۔
جمیل احمد کے بھائی جاوید مسعود نے کہا کہ "جمیل 1981 میں بلوچستان کے چیف سیکرٹری متعین ہوئے۔ بلوچستان میں مقامی انتخابات کے دوران ضیاء الحق اور گورنر بلوچستان نے انہیں منتخب نمائندوں کو انتخابات جیتنے میں مدد دینے کی ہدایات دیں لیکن جب میرے بھائی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا گیا۔ میں فخر سے کہتا ہوں کہ میرا بھائی حکومتی چال کا حصہ نہیں بنا اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے ایک کرائے کے گھر میں زندگی گزاری"۔
جاوید مسعود نے کہا کہ جمیل احمد کی زندگی کا دوسرا مرحلہ 2011 میں اس وقت شروع ہوا جب ان کی تصنیف شائع ہوئی۔ کتاب جنوبی ایشیاء لٹریچر کے DSC انعام کے آخری مرحلے میں رہ گئی لیکن اس نے بھارت میں شکتی بھٹ ایوارڈ حاصل کیا۔
جمیل احمد 1933 کو بھارت کے صوبہ جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جج تھے جس کی وجہ سے ان کی مختلف شہروں میں تعیناتی ہوتی رہتی اور یوں جمیل احمد کو بھی مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ تقسیم ہندوستان کے وقت وہ دہلی کے سینٹ کولمبیا اسکول میں زیر تعلیم تھے۔
دوسال قبل جب انہیں شکتی بھٹ ایوارڈ ملا تو انہوں نے ایوارڈ کی رقم کو کہ جو ایک لاکھ بھارتی روپیہ تھی سینٹ کولمبیا اسکول دہلی کو عطیہ کر دیا۔
پاکستان ہجرت کرنے کے بعد جمیل احمد نے پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا اور 1954 میں سول سروسز میں چلے گئے۔
انہوں نے ایک مشہور ماہر ماحولیات ہیلگا احمد سے شادی کی اور اپنے پیچھے دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔
جمیل احمد نے اپنی ملازمت کا زیادہ تر عرصہ خیبر پختونخوا میں گزارا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر بھی کام کر تے رہے۔
انہیں اردو، انگریزی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور حاصل تھا۔
2011 میں 'کچھ خاص گیلری' میں ان کی تصنیف 'دی وانڈرنگ فالکن" کی تقریب رونمائی کے موقع پر شاعر حارث خلیق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ان کی کتاب 'دی وانڈرنگ فالکن پاکستان کے انگریزی ادبیات میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ کتاب کی زبان نہایت جاذب انداز میں ڈیورنڈ لائن پاک افغان بارڈر کے بارے میں بات کرتی ہے۔ ان کی نثر کا انداز قائل کرنے والا اور واضح ہے، کرداروں کی تخلیق مشفّقانہ ہے اور ثقافتی حساسیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے"۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں