ہمارے فوجیوں پر کوئی بھی حملہ کیا گیا تو اس کا سخت ترین جواب دیا جائے گا: ابراہیم قالن

ادلب میں ہماری بنیادی لکیر 2018 میں روس کے ساتھ طے پانے والا سوچی سمجھوتہ ہے لہٰذا فوری طور پر سوچی سمجھوتے کی طرف واپسی ضروری ہے: صدارتی ترجمان ابراہیم قالن

1362320
ہمارے فوجیوں پر کوئی بھی حملہ کیا گیا تو اس کا سخت ترین جواب دیا جائے گا: ابراہیم قالن

ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن  نے کہا ہے کہ شام کے علاقے ادلب  سے متعلق ترکی کی بنیادی لکیر سوچی سمجھوتے کی طرف رجُوع ہے۔

کل کابینہ اجلاس کے دوام کے دوران اخباری نمائندوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ شام اور خاص طور پر ادلب کی صورتحال ہمارے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز سے اب تک روس کے ساتھ  وفود کی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مذاکرات میں ہم نے اپنا موقف حتمی شکل میں پیش کر دیا ہے کہ ادلب میں ہماری بنیادی لکیر 2018 میں روس کے ساتھ طے پانے والا سوچی سمجھوتہ ہے لہٰذا فوری طور پر سوچی سمجھوتے کی طرف واپسی ضروری ہے۔ اور اس سے قبل طے شدہ شکل میں ادلب سیف زون کی سرحدوں کو دوبارہ بنیاد قبول کر کے خاص طور پر ہماری مانیٹرنگ چوکیوں اور شہریوں کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔

قالن نے کہا ہے کہ اس موضوع پر ہم متعدد ملاقاتیں اور مذاکرات کر  چکے ہیں اور آج  کے اجلاس میں ان مذاکرات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ بین الوفود مذاکرات میں کسی نئی تاریخ کا تعین کیا گیا ہے؟ اور کیا سربراہان کے درمیان بھی کوئی مذاکرات ہوں گے؟ قالن نے کہا ہے کہ " اس وقت تک مذاکرات سے ہمارے لئے کوئی تسلی بخش نتیجہ نہیں نکلا۔ جو کاغذ اور نقشہ ہمیں پیش کیا گیا تھا اسے ہم نے قبول نہیں کیا۔ بلا شبہ مذاکرات جاری رہیں گے کیوں کہ ان معاملات کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے"۔

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ اس پہلو کو ہم متعدد دفعہ دو ٹوک شکل میں پیش کر چکے ہیں کہ  ترکی کی شام یا پھر کسی ا ور ملک کی بالشت بھر زمین پر بھی نظر نہیں ہے۔ لیکن شام میں ہزاروں انسان قتل کئے جا چُکے ہیں لاکھوں انسان مہاجر بن  چُکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ترکی یا پھر بین الاقوامی برادری کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنے اور خاموش تماشائی بنے رہنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

قالن نے کہا ہے کہ کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہمارے فوجیوں پر کوئی بھی حملہ کیا گیا یا پھر کوئی بھی تحریکی قدم اٹھایا گیا تو اس کا سخت ترین جواب دیا جائے گا ۔ ایسا ایک جواب ہم  نے گذشتہ ہفتوں میں دیا  بھی ہے۔



متعللقہ خبریں