پی وائی ڈی / وائی پی جی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

پی وائی ڈی / وائی پی جی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

900005
پی وائی ڈی / وائی پی جی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

پی وائی ڈی / وائی پی جی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

پی کے کے/کے سی کے،کے قیام سے اب تک  مشرقی اور جنوب مشرقی  اناطولیہ   کے علاقے  میں آباد   ہمارے باشندوں  پر ظلم و ستم ، جبر  اور تشدد)دیہاتوں  پر حملے، قاتلانہ حملے،  زبردستی ہجرت پر مجبور کرنا، خوف و ہراس میں مبتلا کرنا وغیرہ  ( کرتے  ہوئے  علاقے کے عوام   کو دہشت گرد تنظیموں  میں شامل کرنے  کی پالیسی  اپنائے ہوئے ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کی شام میں موجود ایکسٹینشن  پی وائی ڈی/وائی پی جی  بھی اسی طرح کی حکمتِ عملی  شام میں آبادباشندوں پر  لاگو کیے ہوئے ہے۔

پی وائی ڈی /وائی پی جی  دہشت گرد تنظیم  علاقے میں واحد طاقتور  قوت کے طور پر  ابھرنے کے لیے علاقے کے باسیوں جن میں کرد، عرب،  ترکمین اور یزیدی  نسلی گروپوں   کے خلاف نسلی صفاے کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے  بڑے بڑے غیر انسانی  جرائم  میں ملوث ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے جرائم  دراصل  بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ بھی شائع کی ہے۔  ان دہشت  گرد تنظیموں نے علاقے میں آباد باشندوں پر تشدد کرتے ہوئے  ان کو علاقے کو ترک کرنے پر مجبور کیا ہے۔  پی وائی ڈی /وائی پی جی  دہشت گرد تنظیم   کے ظلم  و ستم سے راہ فرار  اختیار کرنے   والے انسانوں نے   ترکی کے شام کے ساتھ ملنے والی سرحدی چوکی  کو کھلے دیکھ کر   اور ترکی کو اپنے لیے ایک محفوظ ملک سمجھ کر  ترکی میں پناہ  لینے کو ترجیح دیا ہے۔ پی وائی ڈی /وائی پی جی  دہشت گرد تنظیم   کی جانب سے انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں  کے باوجود  یہ تنظیم   دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف  جد و جہد  جاری رکھنے والی   واحد تنظیم کے طور پر  پیش کرتے ہوئے   انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  سے اپنے آپو کو بچانے کی کوششوں میں مصروف رہی ہے جس پر بین الاقوامی  انسانی حقوق کے ادارے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔  دہشت گرد تنظیم  داعش کے خلاف نام نہاد جدو جہد  کی آڑ میں یہ تنظیم   علاقے میں آباد   کردو، عرب، ترکمین  کی طرح کے نسلی گروپوں  کے خلاف  اپنے پاس موجود جدید  اسلحہ استعمال کرتے ہوئے ان  پر ظلم و ستم اور جبر کی پالیسی لاگو کررہی ہے۔

مثال کے طور ر شام کی انسانی حقوق  کی تنظیم   (SNHR)کی جانب سے  جنوری 2016ء  میں شائع کردہ   رپورٹ میں  پی وائی ڈی /وائی پی جی  دہشت گرد تنظیم   کے زیر کنٹرول   علاقوں میں نسلی صفاے کی پالیسی  سے لے  کر زبردستی   فوج میں بھرتی کرنے  اور زبردستی ہجرت پر مجبور کرنے   تک کئی ایک موضوعات  انسانی حقوق کی خلاف ورزی  کیے جانے کی تصدیق  کی گئی ہے۔ رپورٹ کی شائع کردہ تاریخ  تک 51 بچوں،43 خواتین   اور تشدد کے باعث  16  افراد سمیت  کم از کم  407  سویلین کو پی وائی ڈی /وائی پی جی  دہشت گرد تنظیم   کی جانب سے ہلاک کیے جانے    سے متعلق آگاہی فراہم کی گئی ہے۔

 

  انسانی حقوق کی نگران تنظیم  کیطرف سے جون 2014 میں جاری انڈر کرڈش رُول۔ ابوسیس ان پی وائے ڈی ۔رن انکلیویز آف سیریا " نامی ایک دوسری رپورٹ میں   بتایا  گیا ہے کہ پی وائے ڈی / وائے پی جی دہشت گرد تنظیم سیاسی لحاظ سے  جن شخصیات کو اپنے رقیب کی نظر سے دیکھتی  ہے    ان کے اغوا اور قتل جیسے  واقعات  میں ملوث ہے۔خاصکر پی وائے ڈی کی مخالف پارٹیوں میں سے شامی کردی ڈیموکریٹ پارٹی کے یکیتی اور آزادی  نامی اراکین  کو بلا وجہ گرفتار کیا گیا اور ان سے برا سلوک کیا گیا ۔پی وائے ڈی /وائے پی جی کے نسلی صفایے کی حد تک پہنچ جانے والی  انسانی حقوق کی پامالیوں کا مثالوں کیساتھ جائزہ پیش خدمت ہے ۔

 مخالفین کا قتل

 شام میں پی وائے ڈی/ وائے پی جی نے متضاد سیاسی نظریات رکھنے والے مخالفین کو قتل  کیا ہے ۔  اس تنظیم نے سب سے پہلے اکتوبر 2011 میں  شام کے مخالف کردوں پر مشتمل " مستقبل کی پارٹی " کے لیڈر مشل ٹیموں کو قتل کیا تھا ۔  اس تنظیم نے اسد انتطامیہ کے ساتھ مل کر   کردوں کی اکثریت  کے علاقوں میں  مخالفین کا  جو قتل و غارت شروع کیا تھا  علاقے  کے عوام نے اس  پر شدید رد عمل ظاہر کیا ۔   اس کے بعد مخالفین کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ پی وائے ڈی/ وائے پی جی  نےایک قبیلے کے سربراہ بدرو اور شامی کردوں کی ڈیموکریٹ یونین پارٹی کے حلب کے امور کے ذمہ دار شر زاد حج رشید کو بھی ہلاک  کر دیا ۔   تنظیم کے دباؤ  سے تنگ آ کر  شامی کرد ڈیموکریٹ پارٹی کے چیر مین صالح بدرالدین   جرمنی گئے اور وہاں سے عربل فرار ہو گئے ۔

شام میں خانہ جنگی سے قبل 12 کردی گروپ موجود تھے  لیکن اب صرف پی کے کے / پی وائے ڈی رہ گئی ہے ۔  اس تنظیم کے دباؤ کی وجہ سے پی وائے ڈی کے زیر کنٹرول علاقوں سے  سینکڑوں کردی دیگر علاقوں میں ہجرت کر گئے ۔ تین لاکھ پچاس ہزار شامی کرد وں نے ترکی  میں پناہ لے رکھی ہے ۔

 عمودہ کے علاقے میں 27 جون 2013 میں  پی وائے ڈی / وائے پی جی کے خلاف ایک مظاہرہ ہوا ۔تنظیم کے دہشت گردوں نے مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے 8 مخالفین کو ہلاک کر دیا   اسی مظاہرے کے دوران   ییکیتی پارٹی کے پچاس اراکین کو پی وائے ڈی / وائے پی جی  کے دہشت گردوں نے تنظیم کے دفتر میں لے جا کر انھیں زدو کوب کیا ۔

قید  میں یا پھر حراست میں ہونے والوں    کے حوالے سے خلاف ورزیاں

دہشت گرد  تنظیم کی جانب سے   پولیس    کے ادارے کے  نام سے منسوب کردہ  "ادارہ نظم و نسق"   کی خلاف ورزیوں نے  حقوق انسانی  کی جائزاتی  تنظیموں کی  رپورٹوں میں  جگہ پائی ہے۔  جس کے مطابق اس  بات کا انکشاف ہوا ہے کہ قید میں ہونے والے    انسانوں    کو حبس بے جا میں  رکھا گیا اور ان سے  بُرا سلوک کیا گیا، جن میں سے  اکثر   اس  دوران  ہلاک ہو گئے۔  ہیومن رائٹس واچ  رپورٹ کے مطابق عفرین میں  قید میں ہونے والی حانہ  ہمدوش کو کچھ مدت بعد قتل کر دیا گیا ،   اس بات کا دعوی کیا گیا  کہ پی وائے ڈی /وائے پی جی کے کارندوں   نے سر دیوار  پر مارتے  مارتے   اس شخص   کو مارڈالا۔ فروری 2014  کو  سیرے  قانیہ  میں رونما ہونے والے  ایک دوسرے  واقع    میں 24 سالہ رشوان آتاش کو   "نظم و نسق" پولیس نے مار ڈالا تھا۔

اسی رپورٹ  کے مطابق  2012 تا 2014  علاقے میں   لا پتہ اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد  9 تھی۔  ان تمام افراد کا وائے پی جی/ پی وائے ڈی   کے مخالف  ہونا  سیکورٹی قوتوں کے   اپنی من مانی کرنے کا  شبہ  پیدا کرتا ہے۔

خواتین اور بچوں پر تشدد

پی وائے ڈی /وائے پی جی  دہشت گرد تنظیم قبضہ کردہ مقامات  پر اپنی حاکمیت کا تحفظ کرنے ، ان کی مخالفت کرنے والے عوام کو  دبانے اور  اپنا کارندہ بنانے کے زیر مقصد خواتین اور بچوں  سے  تشدد کرتی ہے۔ پی وائے ڈی / وائے پی جی   کی ان حرکات کا  شامی حقوقِ انسانی   تنظیم کی  جنوری 2016 کی رپورٹ میں بھی  ذکر آیا ہے۔ متعلقہ رپورٹ  میں 2011 اور 2016 کے درمیانی عرصے میں پی وائے ڈی /وائے پی جی کی جانب سے 42 خواتین کا قتل کرنے  کے اثبات  بھی  پیش کیے گئے تھے۔ ان  خواتین  میں سے ایک  حلب سے  منسلک سائے غول  گاؤں  کی باسی  نابیہ  الا صلاح کو   14 اگست سن 2015 کو   دہشت گردوں نے راقہ ۔ تل عبید  شاہراپ پر  تین گولیاں مارتے ہوئے  مار ڈالا تھا۔

اس رپورٹ میں  شامل قابل توجہ ایک  دوسراواقع طرفہ خلیل الا ہاسود   سے متعلق ہے جو کہ 58  برس کی تھی۔   پی وائے ڈی کے دہشت گردوں  نے اس کے خاوند کا قتل کرنے کے بعد اس کی اہلیہ کو  اس کے گھر کے  پچھواڑ  میں   بے دردی سے مار ڈالا تھا۔ علاوہ ازیں    رپورٹ  میں یہ بھی درج ہے کہ  پی وائے ڈی /وائے پی جی نے جنوری سن  2014   تا اکتوبر 2015 حاسیکے، قامشلی، عفرین  کی  طرح کے علاقوں  سے "مجبوری  عسکری خدمات" کے  نام پر  زبردستی  اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

نسلی صفائی اور جبری  نقل مکانی

پی وائے ڈی /وائے پی جی  دہشت گرد تنظیم کے  مؤثر ہونے والے علاقوں میں  بھاری تعداد میں عرب اور ترکمانوں سمیت  سریانی، آرمینی  اور دیگر اقلیتی گروہ  بھی   مقیم ہیں۔ قبضہ کردہ سرزمین پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کے درپے دہشت گرد تنظیم ، علاقے  کے مکینوں  کو زبردستی  نقل مکانی  پر مجبور  کرنے  کے ساتھ  ساتھ  بعض رہائشی بستیوں کومسمار کرتے ہوئے وہاں کے ڈیموگرافک ڈھانچے کو بھی  تبدیل کرنے کی کاروائیاں کر رہی ہے۔

حقوق انسانی    کی شامی تنظیم  کی رپورٹ کے مطابق   الحسکہ  میں تقریباً 100 کے قریب ترکمین خاندان ظلم و تشدد کا نشانہ  بنے   جنہوں نے  پہلے ملک کے دیگر علاقوں  اور پھر وہاں سے  ترکی میں پناہ لی ۔

مذکورہ  تنظیم   کی جانب سے  جنوری 2016  کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں  پی وائی ڈی  نے  رہائشی بستیوں  کا صفایا کرنا شروع کیا  اور یہی نہیں  بلکہ  بعد میں کرد آبادی   سے پاک   علاقوں  میں بھی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا  جس پر  مہاجرین کا قافلہ  نقل  مکانی پر مجبور  ہوا۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ   اس قتل عام میں  عربوں   اور دیگر قومیتوں کے  درجنوں افراد قتل ہوئے  ،سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے   جو کہ واضح طور  پر   روم معاہدے کی قرارداد8 کی خلاف ورزی ہے ۔ متعلقہ تنظیم  کی رو  سے ،اس ساری صورت حال کے دوران  9 بستیاں اجاڑ دی گئیں  اور وہاں کے مکینوں کو در بدر کر دیا گیا ،19 دیہات تہہ و بالا کر دیئے گئے اور ناپسندیدہ افراد کو   در بدر کی ٹھوکریں کھانے کےلیے چھوڑ دیا گیا   حتی  پی وائی ڈے کے زیر قبضہ دیہاتوں میں  غیر کرد آبادیوں کو بھی نقصان  پہنچا یا گیا  جن کی تعداد 49 کے قریب بتائی جاتی ہے۔

 پی وائی ڈی  نامی یہ دہشتگرد تنظیم   نے  26 مئی 2015 کو جنوبی  الحسکہ   کے  26 سے زائد دیہاتوں  کو خالی کروانے کےلیے  24 گھنٹے کی مہلت دی ۔اس صورت حال کے ایک عینی گواہ کے مطابق ، دہشتگردوں  نے دیہاتوں  پر دھاوا بولتے ہی  عربوں پر حملہ کر دیا   اور اعلان کیا کہ نام نہاد کردستان  میں عربوں اور ترکمینوں کےلیے کوئی جگہ نہیں  ہوگی ۔ اسی طرح  فروری  2015 میں  الحسکہ  میں آباد 100 ترکمین خاندانوں   کی  جبراً  گرفتاریوں  اور تشدد  سے متاثر ہونے کی خبریں بھی سر عام ہوئیں جن سے دل برداشتہ ہو کر یہ خاندان ترکی میں آباد ہو گئے۔

 ایمنیسٹی انٹرنیشنل   کے   اکتوبر 2015 میں ایک عینی گواہ    کے بیان کی روشنی میں  ، مواصلاتی سیارے اور ماہرین کی رائے میں    "جائیں تو جائیں  کہاں"  نامی ایک  رپورٹ  بتایا گیا کہ دہشتگردوں نے کس طرح  سے  علاقے میں نسلی صفائی  ، جبری نقل مکانی  اور آبادیوں کو تہس نہس کرنے   کا جرم  کیا ہے ۔طل خمیس  نامی  ساحلی علاقے میں  واقع عرب اکثریتی  دیہات  حسینیہ   کا مشاہدہ  رکنے کے بعد یہ تمام حقائق ایک رپورٹ کی صورت میں سامنے آ گئے ہیں۔

 

 

جون 2014 اور جون 2015 کی تاریخوں  میں گاوں کے حالات کا  تقابل گاوں کی سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے کیا  گیا ہے جن میں  225 عمارتوں والا گاوں    ایک سال کے اندر 94 فیصد تباہ شدہ شکل میں دکھائی دے رہا ہے اور گاوں میں صرف  14 عمارتیں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ماہر لیما فقیہہ نے کہا ہے کہ PYD/YPG بین الاقوامی انسانی حقوق کو نظر انداز کر کے شہریوں کے گھروں اور دیہاتوں کو مسمار کر رہی ہے، کسی بھی فوجی بنیاد کے بغیر یہاں کے مکینوں کو بے گھر کر رہی ہے اور جنگی جرم شمار ہونے والے حملے کر رہی ہے۔

کم سن جنگجو

دہشت گرد تنظیم PYD/YPG شام میں دہشت گردی کے ساتھ قبضے میں لی گئی زمین پر حاکمیت قائم کرنے کے لئے کثیر تعداد میں بچوں کو اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہے اور جھڑپوں کے دوران ان بچوں کو فرنٹ لائن پر لڑا رہی ہے۔

زمانہ جنگ میں شہریوں  کے تحفظ سے متعلق 1949 کے  جنیوا سمجھوتوں اور ان   کے  ضمنی پروٹوکولوں میں، 1989 کے اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے سمجھوتے اور اس کے ضمنی پروٹوکول میں   اور اس طرح کے دیگر متعدد بین الاقوامی سمجھوتوں میں بچوں کو جنگ میں شامل کرنا ممنوع ہے۔ لیکن PYD/YPG کے اس قانون کی خلاف ورزی کرنے کی متعدد خود مختار بین الاقوامی اداروں  اور تنظیموں کی رپورٹوں میں نشاندہی کی گئی ہے۔ "شامی بچے اور مسلح جھڑپیں" کے عنوان سے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حسکہ کے علاقے میں 14 سے 17 سال کے بچوں کو دہشت گرد تنظیم کے اراکین کے طور پر جمع کیا گیا ہے جنہیں کنٹرول چوکیوں پر جھڑپوں کے علاقوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی جون 2016 میں شائع کردہ انسانی تجارت سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم PYD/YPGپندرہ سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو تنظیم کے اراکین کے طور پر پیش کر رہی ہے، انہیں استعمال کر رہی ہے اور تربیتی کیمپوں میں بھیج رہی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق اپریل 2015 میں عفرین میں دہشتگرد تنظیم PYD/YPG نے ایک 16 سالہ لڑکی کو اس کے کنبے کی مخالفت کے باوجود اغوا کر لیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی "انڈر کردش رُول"  کے عنوان سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق  PYD/YPG-YPJ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو دہشت گرد تنظیم کا رکن بنا رہی ہے اور ان سے جنگ کروا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاس 59 بچوں کے ناموں کی ایک فہرست موجود ہے جس میں سے 10 بچوں کی عمریں 15 سال سے کم ہیں۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی آزاد شامی تحقیقاتی کمیشن  کی 16 اگست 2013 کو شائع کردہ رپورٹ کے مطابق عفرین اور حسکہ میں  PYD/YPG نے 12 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو تنظیم میں شامل کر رکھا ہے۔

 



متعللقہ خبریں