ہماری بہادر عورتیں۔08

آج ہم آپ کو ترکیہ کی پہلی آسٹروفزیولوجسٹ 'ضیلھان اریرت' سے متعارف کروائیں گے

2105360
ہماری بہادر عورتیں۔08

ہاتھ میں پکڑے مالٹے کو ہوا میں اُچھالتے ہوئے میں خیالوں میں کھو گئی۔ مالٹا سورج سے کتنا زیادہ مِلتا جُلتا ہے۔ سورج کی طرح گول اور اسی جیسا آتشیں رنگ والا۔   شائد یہی وجہ ہے کہ طالبعلموں کو نظامِ شمسی سمجھاتے ہوئے اساتذہ  زیادہ تر مالٹا استعمال کرتے ہیں۔

 

ہم ہر روز سورج کے ساتھ بیدار ہوتے، اس کے ساتھ دن گزارتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں۔ ہم سب کی زندگیوں  کا پروگرام سورج کے طلوع و غروب کے مطابق  شکل اختیار کرتا ہے۔

ان سوچوں کے دوران میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرا اور تمام سوچوں پر حاوی ہو گیا۔ سوال یہ تھا کہ "کیا سورج کی بھی کوئی عمر ہے؟"

آج ہم آپ کو ، زمین سے 150 بلین میٹر کی مسافت پر واقع  اس ستارے یعنی سورج  پر تحقیقات کرنے والی ترک آسٹروفزیالوجسٹ "ضیلھان اریرت" سے متعارف کروانا چاہتے ہیں۔

 

ضیلھان اریرت 1929 میں ازمیر میں پیدا ہوئی۔ وہ بچپن سے ہی نہایت محنتی اور کامیاب طالبہ تھی۔ یوں تو وہ ہر مضمون کو ہی دِل لگا کر پڑھتی تھی لیکن ریاضی سے اس کا لگاو  دلچسپی سے زیادہ عشق کی حد تک پہنچ چُکا تھا۔ اس عاشقانہ لگاو میں خلائی علوم بھی شامل ہونے کے بعد ضیلھان نے استنبول یونیورسٹی  سے اعلیٰ تعلیم کے لئے ریاضی ا ور آسٹرونومی کا شعبہ منتخب کیا۔ استنبول یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ انقرہ یونیورسٹی میں معاون لیکچرار متعین ہوئی اور اس دوران اس نے ڈاکٹریٹ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر شپ کا تحقیقی کام مکمل کیا۔

 

اس شاندار عورت کو ترکیہ میں آسٹروفزولجی متعارف کروانے والی پہلی شخصیت کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ ضیلھان اپنے تعلیمی و تحقیقی کاموں کے لئے پہلے کینیڈا گئی اور اس کے بعد امریکہ جا کر ناسا  کے خلائی تحقیق کے انسٹیٹیوٹ' گوڈارڈ' میں کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ 1961 سے 1973 تک ناسا میں کام کرتی رہی اور اس ادارے کی  پہلی ترک سائنس دان کی حیثیت سے ترکیہ کے لئے سرمایہ فخر بن گئی۔

 

ضیلھان نے اپنی تحقیقات سے سورج کے بارے میں قبول شدہ بعض غلط سائنسی معلومات کی اصلاح کی۔ اس نے ثابت کیا کہ سورج  ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ چمکدار نہیں ہو رہا ہے   بلکہ ماضی میں سورج زیادہ چمکدار بھی تھا اور زیادہ گرم بھی۔ یہ معلومات ضیلھان کے دور میں ابھی نئی نئی شروع ہونے والی خلائی پروازوں کے لئے نہایت اہم ثابت ہوئیں۔ پہلی دفعہ چاند پر کامیاب لینڈنگ میں کردار ادا کرنےکی وجہ سے 1969 میں انہیں اپالو  اعزاز سے نوازا گیا۔

 

ضیلھان ار یرت 1973 میں وطن واپس لوٹ آئی اور مڈل ایسٹ ٹیکنیک یونیورسٹی میں آسٹروفیزکس ڈپارٹمنٹ قائم کر کے یہاں تدریس شروع کر دی۔ ان سے تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کے مطابق وہ نہ صرف  اپنے لباس اور رکھ رکھاو میں نہایت نفیس خاتون تھیں بلکہ نہایت حلیم طبع بھی تھیں۔

1988 میں وہ چھ ماہ تک فزکس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ رہیں اور اس کے بعد 5 سال تک فنون  و ادبیات فیکلٹی کی ڈین کے فرائض ادا کرتی رہیں۔ ضیلھان  1993 میں ریٹائر ہوئیں اور 2012  میں وفات پا گئیں۔

 

میں ان سوچوں کے ساتھ ساتھ ایک طرف ابھی تک مالٹے کو اُچھال رہی تھی تو دوسری طرف آنکھوں کے کنارے سے ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی۔  اور پھر وہ لمحہ آن پہنچا جس کا میں نہایت بے قراری سے انتظار کر رہی تھی۔ آلپر گیزیر آو جی کو بحیثیت پہلے ترک خلاء باز کے 19 جنوری  بروز جمعہ ترکیہ کے مقامی وقت کے مطابق رات 12 بج کر 49 منٹ پر خلاء میں بھیجا گیا اور ہم نے اس روانگی کو براہ راست ٹیلی ویژن سے دیکھا۔

 

آلپر  کی خلائی پرواز نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ سچ پوچھیں تو آج آپ کو پہلی ترک آسٹروفزیالوجسٹ ضیلھان اریرت سے متعارف کروانے کا خیال بھی اسی پرواز سے میرے ذہن میں آیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بحیثیت ملّت ابھی ہم آسٹروفزکس کے شعبے میں اور بہت سی کامیابیاں حاصل کریں گے۔  میں خود بھی اس شعبے میں تحقیقات کروں گی۔

 



متعللقہ خبریں