پاکستان ڈائری - نکاح نامہ

پاکستان کے قوانین کے مطابق شادی کرتے وقت آپ کو نکاح نامہ پر کرنا پڑتا ہے جس پر لڑکی اور لڑکے طرف سے گواہ شامل ہوتے ہیں ۔ اسکو مکمل کرنے کے بعد شادی ہوتی ہے اور اسکو مولوی صاحبان ہی یونین کونسل میں جمع کردیتے ہیں

1784554
پاکستان ڈائری - نکاح  نامہ

پاکستان ڈائری-08

پاکستان میں چھپ کر شادی کا رواج بڑھتا جارہا ہے عمومی طور پر یہ دوسری شادی کے لئے کیا جاتا ہے اس کو رجسٹرڈ بھی نہیں کرایا جاتا یوں لڑکی طلاق کی صورت میں متعدد مصائب کا سامنا کرتی ہے۔ پاکستان کے شوبز اورپاور سرکل میں چھپ کر نکاح کرنا اورچھپ کر دوسری شادی کرنا اور اسکو رجسٹرڈ نا کرنا عام ہوتا جارہا ہے۔ جبکے ہمارا مذہب ہمیں اعلانیہ شادی اور رخصتی کے اگلے روز ولیمہ کا کہتا ہے۔ چھپا ہوا رشتہ عورت کو بہت تکلیف دہ سکتا ہے اگر اولاد ہونے کے بعد مرد شادی سے مکر جائے تو دستاویزات نا ہونے کی صورت میں عورت کیا کرے گی معاشرہ اس کے لئے زندگی تنگ کردے گا۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق شادی کرتے وقت آپ کو نکاح نامہ پر کرنا پڑتا ہے جس پر لڑکی اور لڑکے طرف سے گواہ شامل ہوتے ہیں ۔ اسکو مکمل کرنے کے بعد شادی ہوتی ہے اور اسکو مولوی صاحبان ہی یونین کونسل میں جمع کردیتے ہیں یوں شادی رجسٹرڈ ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ لوگ اپنی زوجیت میں تبدیلی کو نادرا کے ریکارڈ میں بھی اپ ڈیٹ کردیتے ہیں ۔

نادرہ کے ترجمان کہتے ہیں پہلے لڑکا اور لڑکی اپنے خاندان کا حصہ ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد انکی نئ فیملی اسٹارٹ ہوتی ہے ایک نیا خاندان وجود میں آتا جو اس دلہا دلہن کا ہوتا ہے۔ماں  باپ کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کے باوجود شادی اور طلاق کی صورت میں نادرہ کے ڈیٹا میں اینٹری کرانا ضروری ہے۔ مرد عورت دونوں کو شادی ہونے کی صورت میں شادی شدہ مارک کردیا جاتا ہے ۔ طلاق کی صورت میں خاتون شوہر کے نام سے والد کے نام پرواپس چلی جاتی ہے۔ مرد طلاق کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کرے گا تو اسکی بیوی کو اس کے خاندان سے الگ کردیا جائے۔ وہ کہتے ہیں خاتون اگر اپنی زوجیت میں شوہر کا نام لکھ بھی لیں تو ہم انکو یہ سہولت دیتے ہیں کہ وہ اپنا سر نیم والد والا ہی رکھ سکتی ہیں انکو شادی کے بعد نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ترجمان نادرہ کہتے ہیں کہ متعدد شادیاں بھی رجسٹرڈ کرانا لازمی ہیں یہ آن لائن بھی نادرہ کے پورٹل پر کیا جاسکتا ہے اور نادرہ کے کسی بھی ذیلی دفترمیں بھی آپ یہ دستاویزات جمع کراسکتے ہیں۔

 مسلم خاندانی قوانین ۱۹۶۱ کے آرڈینس مجریہ کے تحت نکاح نامہ تشکیل دیا گیا۔اس میں وارڈ کا نام ٹاون یونین لکھنا ہوتا ہے اس کے ساتھ تحصیل ضلع بھی لکھنا ہوتاہے جہاں پرشادی وقوع پذیر ہوئی۔ اس کے بعد دولہا کی معلومات درج ہوتی ہیں اس کی عمر تاریخ پیدائش درج ہوتی ہے اس کےبعد شق نمبر چار میں دلہن کی معلومات درج ہوتی ہیں اس کا نام اسکے والد کا نام اس کے بعد اسکی ازدواجی حیثیت عمر اور تاریخ پیدائش لکھی جاتی ہے۔ جس طرح دلہن کے بارے میں کنواری بیوہ یا مطلقہ کا خانہ موجود ہے پہلے صفحے پر مرد کے بارے میں بھی یہ لکھا ہونا چاہیے وہ کنوارا ہے شادی شدہ طلاق یافتہ یا رنڈوا ہے۔

آٹھ اور نو نمبر پر گواہان آتے ہیں لڑکی کی طرف سے دو گواہ اور لڑکے کی ایک سے وکیل اور دو گواہ ہوتے ہیں۔ ان کا نام پتہ اور شناختی کارڈ درج کیا جاتا ہے۔ گیارہویں نمبر پر شادی کے گواہان کے تفصیلات لکھی جاتی ہیں۔ اگر ہم نکاح نامے کی شق تیرہ اور چودہ  دیکھیں تو یہ مہر کے حوالے سے ہے یہ دلہن کا حق ہوتا ہے کہ وہ جتنی چاہیے رقم لکھوائے یہ حق اس کو قانون اور مذہب دیتا ہے۔ تاہم میرے مطابق یہ مناسب ہونی چاہیے نا بہت زیادہ نا بہت کم۔ معجل اور غیر معجل مہرطے کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ اس ہی طرح شق پندرہ سولہ میں یہ پوچھا گیا ہے کہ شادی کے موقع پر حق مہر میں سے کتنا ادا کیا گیا ہے اور اگر کوئی جائیداد دی گئ ہے تو اس کی تفصیل بیان ہو۔ یہ خاتون کا حق ہے کہ وہ اپنے شوہر سے مہر اور جائیداد مانگ سکتی ہے۔ شق نمبر ۱۷ میں شرائط کا ذکر ہے دلہن اپنی جائز شرائط یہاں لکھ سکتی ہے اور دلہا انکو پوراکرنے کا پابند ہے۔ شق نمبر ۱۸ کے بارے میں بہت سی خواتین لاعلم ہیں جہاں وہ جیولری لہنگے برینڈز کی طرف فل فوکس ہوتی ہیں لیکن نکاح نامہ دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ پوری شادی کا ہیش ٹیگ بنا ہوتا ہے لیکن بس دلہن کی نظر نکاح نامے پر نہیں ہوتی۔

پہلا صفحہ تو پاکستان میں پھر بھی مکمل لکھا جاتا ہے لیکن دوسرا تو لڑکی اور لڑکے کے گھر والے پورا کاٹ دیتے ہیں۔ یہ انتہائی غلط عمل ہے۔ دوسرا صفحہ بھی مکمل پر ہونا چاہیے۔ شق ۱۸ کی وجہ  سے خاتون کو طلاق دینے کا حق ملتا ہے ناچاکی صورت میں وہ اپنے خاوند کو طلاق دے سکتی ہے۔ اسلام خلع کا حق دیتا ہے اور قانون عورت کو طلاق دینے کا حق دیتا ہے۔ اس لئے خواتین یہ حق ضرور لیں۔شق بیس بھی بہت اہم ہے تاہم بہت سے لوگ اسکو نکاح نامے میں فل نہیں کرتے کہیں لالچ نا لگے۔ یہ لالچ نہیں ہے یہ ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں لاکھوں کا جہیز لیتے ہوئے شرم نہیں محسوس کی جاتی تو پھر نکاح نامہ جوکہ قانون کا حصہ ہے اس کو مکمل فل کرنے میں کیا شرم یا لالچ اسکو فل کرکے لڑکی کو محفوظ مستقبل دیں۔

شق نمبر ۲۱ میں پہلی شادیوں کا مرد سے پوچھا جاتا ہے اور پہلی بیوی سے اجازت نامے لیا ہے یہاں پر بہت لوگ جھوٹ بولتے ہیں جس سے بہت سی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں ایسے کرنے والو پر بھاری جرمانے ہونا چاہیں۔ اسکے بعد نکاح نامے پر رجسٹریشن کی تاریخ  فیس درج ہوتی ہے اور سب کے سائن ہوتے ہیں۔ جس میں نکاح خواں اور نکاح رجسٹرار کے دستخط اہم ہیں۔ نکاح نامے پر مہر لگائی جاتی ہے یوں نکاح نامہ قانونی دستاویز بن جاتا ہے۔

صدیق اظہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ  تیرہ سے چوبیس تک شقیں بہت اہم ہیں تیرہ سے سترہ دلہن کے لئے ہیں باقی نکات دلہے کے لئے ہیں۔ مہر میں معجل اور غیر معجل شامل ہے اس کے ساتھ کوئی جائیداد دی گئ ہے تو وہ بھی لکھنا ضروری ہوتا کہ کون سا پلاٹ نمبر ہے وغیرہ شامل ہے۔ شق اٹھارہ کے مطابق عورت مرد کو طلاق دے سکتی ہے اگر مرد کے طلا ق دینے پر کوئی شرط ہے تو اسکوبھی واضح کرنا ضروری ہے۔ اس طرح کیثر الازدواج کے حوالے مسلم فیملی لا میں قوانین موجود ہیں۔ مصالحتی کونسل بیوی سے پوچھتی ہے کہ اس نے شادی کی اجازت دی ہے یا نہیں۔

شادی کو رجسٹرڈ کرانا ضروری ہے یونین کونسل میں یہ دستاویز قانونی شکل میں موجود رہے گا ، دین کی رو سے چار شادیاں ہوجاتی ہیں لیکن پاکستانی قوانین کے مطابق شادی کرتے وقت مرد پہلی بیوی سے اجازت لے گا اگر ایسا نہیں کرے گا تو اسکو ایک سال کی سزا اور ۵ ہزار جرمانہ ہوگا۔ دوسری شادی یونین کونسل میں بیوی کی اجازت کے بعد ہوگی ۔ نکاح نامہ کو نکاح خواہ بھی رجسٹرڈ کراسکتا ہے اسکے ساتھ نادرہ میں نکاح نامہ جمع کراکے میرج سرٹیفیکٹ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ قانونی دستاویزات وارثت میں حصہ لینے کے لئے بہت ضروری ہے۔

اس ہی طرح جو لوگ نکاح کرکے چھپاتے ہیں اسکو رجسٹرڈ نہیں کراتے اس کے حوالے سے قانون سازی اور سزاوں کا تعین کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے آگاہی دے جائے کہ نکاح نامہ رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ اس سے بیوی اور بچوں کا مستقبل محفوظ ہوجاتا ہے۔ جہاں لڑکی کا گھرہو وہاں کی یونین کونسل میں نکاح کو رجسٹرڈ کروایا جائے۔

اس وقت سیاست اور اداکاروں میں ایسی دوسری شادیاں عام ہیں جو چھپ کر جاتی ہیں اور انکو رجسٹرڈ نہیں کرایا جاتا اس سے پہلی بیوی کا بھی استحصال ہوتا ہے اوردوسری بھی تکلیف میں آجاتی ہے۔ اگر بیویوں کی تعداد زیادہ ہے تو دن پیسے جائیداد ان میں برابر تقسیم کئے جائیں اس شق کو نکاح نامہ میں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ شادی کو چھپانے اور رجسٹرڈ نا کرانے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ عوام ان لوگوں سے خواتین کا استحصال کرنا سیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ عوام کے لئے رول ماڈل ہیں۔ دوسری گھریلو تشدد کے خاتمے کے حوالے سے شق بھی نکاح نامہ کا حصہ ہونی چاہیے کہ شوہر اگر بیوی کو مارے گا تو سزا وہ خود ہی نکاح نامے میں لکھ دے۔ کہیں ایسا نا ہو کہ نکاح نامے پر لگی لکیر آپ کی بیٹی زندگی کی لیکروں پر اثرانداز ہوجائے۔

 



متعللقہ خبریں