ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 39
جرمنی میں ترک صدر مخالف موقف کے بعد حالیہ مثبت پیش
![ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 39](http://cdn.trt.net.tr/images/xlarge/rectangle/cf8c/6d8c/8265/5a90256ab739f.jpg?time=1718922953)
ترکی اور جرمنی کے درمیان دو طرفہ تعلقات حالیہ چند برسوں سے بتدریج تناؤ کا شکار ہیں تو حالیہ ایام میں باہمی تعلقات میں بہتری کے اشارے سامنے آنے لگے ہیں۔ تازہ پیش رفت کے مطابق ترک۔ جرمن تعلقات کا تجزیہ اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کے قلم سے۔۔۔۔۔
ترکی کے لحاظ سے جرمنی کے ساتھ باہمی تعلقات حالیہ چند برسوں میں ماضی قریب میں کبھی نہ دیکھے جانے کی حد تک بُرے جا رہے ہیں۔ ماضی سے لیکر آج تک دونوں ملکوں کے درمیان رونما ہونے والا اعلی سطحی تناؤ گاہے بگاہے اپنے آپ کو محسوس کراتا رہا ہے تو بھی طویل المدت اور کسی باقاعدہ فریم میں یہ تناؤگزشتہ تین برسوں کی حد تک پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔
روزنامہ در اشپیگل کی جرمن فیڈرل خفیہ تنظیم بی اینڈ ڈی کی جانب سے سن 2009 سے اعلی ترک حکام کی ٹیلی فون بات چیت کو سننے کی خبریں منظر ِ عام پر آنے کے ساتھ باہمی تعلقات پہلے سے ہی کشیدگی کے شکار تھے۔ اس کے بعد جرمن کامیڈین جان بوہمر مان کے سن 2016 میں ترک صدر ایردوان کے بارے میں تحقیر آمیز اشعار کے جواب میں جرمن اداروں کی جانب سے تحقیقات کرائے جانے کے بجائے اسے آزادی اظہار کے زمرے میں لینا نمایاں سطح کے بحران کا پہلا اشارہ ثابت ہوا ۔ اس واقع کے چند ماہ بعد جرمن وفاقی اسمبلی میں نام نہاد آرمینی نسل کشی کو تسلیم کرنے والے ایک بل کی منظوری نے سفارتی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا۔ انقرہ کی جانب سے انتقامی طور پر انہی ایام میں جرمن وزیر ِ دفاع کے انجیرلک فوجی اڈے کا دورہ کرنے کی درخواست کو مسترد کرنا بین الاقوامی میڈیا میں بازگشت سنائی دینے والی ایک پیش رفت ثابت ہوا۔ حکومتِ جرمنی نے وفاقی اسمبلی کے فیصلے کی کوئی وقعت نہ ہونے کا کہا تھا تو بھی اس بحران نے مزید گہرائی کی جانب پیش رفت کو جاری رکھا۔
جرمنی نے ناقابل سمجھ شکل میں ترکی کی PKK اور فیتو جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد میں انقرہ کے خلاف ہو سکنے والے تمام تر اقدامات اٹھائے۔مذکورہ دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کی اپنے ملک میں میزبانی کرتے ہوئے ان کی ترکی کو حوالگی کی درخواستوں کویکسر مسترد کر دیا ۔ ترکی کی ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائیوں میں شروع سے ہی منفی مؤقف کا مظاہرہ کرنے والی جرمن حکومت کی جانب سے ترکی مخالف سرگرمیوں کو خفیہ رکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کرنا توجہ طلب تھا۔
اسی دور میں برلن نے ترکی میں رونما ہونے والی 15 جولائی بغاوت کی ناکام کوشش کی مذمت میں قدرے عدم دلچسپی اور عدم خواہش کا مظاہرہ کیا۔ بغاوت میں ملوث افراد کو بلا کسی جواز کے ترکی کے حوالے نہ کرتے ہوئے انہیں اپنے ملک میں پناہ دی۔ اس صورتحال نے ، برلن حکومت کے آک پارٹی اقتدار مخالف مؤقف سے ہٹ کر بد نیتی پر مبنی جدوجہد کا تاثر دیا۔ کیونکہ بغاوت کی کوشش کے فوراً بعد اس ملک میں پناہ لینے والے اور حکومت کی جانب سے اقامہ فراہم کیے جانے والے ترک دفتر ِ خارجہ اور فوج کے سابق کارکنان کی تعداد کے 900 کے قریب پہنچنے کے باوجود اس حوالے سے ترکی کے تمام تر مطالبات کو واپس لوٹا دیا گیا۔ ترکی کے کلیدی سلامتی مسئلے ہونے والے دہشت گردوں کی واپسی کے جواب میں جرمن عدالتیں ، سیاسی ترجیح کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترکی کے مخالفین پر دباؤ ڈالتے ہوئے ان کو پس پردہ کرنے اور اس مقصد کے تحت انٹرپول کو بد نیتی کے ساتھ استعمال کرنے کے دعوے پیش کر رہی ہیں۔ جولائی سن 2016 میں اب کی بار جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی جرمنی میں مقیم ترک تارکینِ وطن کے ساتھ ٹیلی کانفرس کے ذریعے انتخابی جلسہ کی درخواست کو مسترد کیے جانے نے دو طرفہ تعلقات میں موجود کشیدگی کا ایک بار پھر واضح طور پر مظاہرہ کیا۔
جرمن ادارے ترکی کی انسدادِ دہشت گردی میں حقوق انسانی کو محدود سطح تک کیے جانے اور جمہوری اصولوں کی مطلوبہ حد تک پاسداری نہ کرنے کا دعوی کرتے چلے آئے ہیں۔ ان دعووں کے ساتھ ساتھ جرمن میں مقیم ترک شہریوں کے خلاف نسل پرست اور تفریق بازی پر مبنی عمل درآمد کے خلاف حکومت ِ جرمنی کا تدابیر اختیار نہ کرنا ، سیکورٹی اور انصاف کے ادارو ں کی جانب سے تحقیقات پر پردہ ڈالنا جرمن اور عالمی ذرائع ابلاغ میں اینٹی ڈیموکریٹک اقدام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
خاصکر ترک شہریوں کے قتل کے حوالے سے جاری مقدمے کہ جس کا فیصلہ گزشتہ دنوں صادر کیا گیا ہے میں شروع سے لیکر آخر تک سراب ِ خیالی کے مؤقف کو اپنایا گیا۔ درجنوں ترک شہریوں کے قتل کیے جانے والے اور قتل ِ عام کے جرمن حکومت کے اندر موجود نازی نواز گروہوں کی حمایت کے قطعی ماہیت اختیار کرنے کے سلسلے میں چند ایک نچلی سطح کے ملازمین کے علاوہ کسی کو کوئی سزا نہ دی گئی اور اس تنظیم کے ڈھانچے کو آشکار نہ کیا گیا۔ جو کہ ملزمین کو حکومت کی سرپرستی اورتحفظ حاصل ہونے کے دعووں کے تقویت دے رہا ہے۔
کشیدگی پر مبنی ان پالیسیوں کو مزید متاثر کرنےو الی پیش رفت امریکہ کے ان دونوں ملکوں کے ساتھ مسائل ثابت ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ترکی اور جرمنی مخالف اقتصادی و سلامتی کی بنیادوں کو متاثر کرنے والی پالیسیاں انقرہ اور برلن کے درمیان قربت پیدا ہونے کا موجب بنیں۔ خاصکر ترکی میں زر مبادلہ کے نرخوں میں وسیع پیمانے کا اتار چڑھاؤ، شعبہ بینکاری کے یورپی سطح پر متاثر ہونے کا احتمال جرمن کے ترکی کے حق میں پوزیشن سنبھالنے کا موجب بنا ہے۔ یہ واقعات نیٹو کے رکن ہونے والے ان دونوں ملکوں کے امریکی منفی مؤقف کے سامنے مزید قریبی زمین پر یکجا ہونے کی ضرورت کو منظر عام پر لا رہے ہیں۔
اس چیز کی تازہ مثال کا جرمن وزیر ِ خزانہ اولاف شولز کا فرانسیسی ہم منصب کے ہمراہ اس ہفتے دورہ ترکی کے دوران مشاہدہ ہوا ہے۔ مذاکرات میں ملکوں کے تجارتی تعلقات کے فروغ اور زرمبادلہ سے تعلق رکھنے والے اتار چڑھاؤ کے دوران جرمنی کے ترکی کے اقتصادی استحکام کا تحفظ کرنے کے مؤقف کا ایک بار پھر اعادہ ہوا ہے۔ اس سے ملتی جلتی پیش رفت کا مشاہدہ گزشتہ ہفتے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کی میزبانی میں جرمن، فرانسیسی اور روسی نمائندوں کے شرکت کرنے والے ادلیب کے مستقبل سے متعلق استنبول اجلاس میں ہوا ہے۔ ادلیب میں کسی ممکنہ کاروائی کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں جرمنی کو ممکنہ مہاجرین کے ریلوں کا سامنا کرنے کے سبب کے باعث جرمنی کے لیے باعثِ خدشات بننے والے نمایاں سطح کے خارجہ پالیسیوں کے معاملات میں شامل ہے۔
ترکی کے یورپ میں قدیم اتحادیوں میں سے ایک جرمنی کے ساتھ ماضی کے حامل، سیاسی، اقتصادی، عسکری و انسانی پہلووں پر مبنی کثیر الجہتی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلقات کئی ایک سرحدی ہمسایوں سے زیادہ گہرے ہیں۔ دو طرفہ اعلی سطحی دوروں کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سطح پر روابط روایتی طور پر باقاعدگی سے سر انجام پاتے ہیں۔دو طرفہ تعلقات کا اس حد تک قریب اور کئی طرفہ ہونا مواقع سمیت بعض امتحانات کو بھی سامنے لاتا ہے۔ مسائل کے حل اور باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ڈائیلاگ کے چینلز کو کھلا رکھنے کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ حالیہ ایام میں مشترکہ خطرات کو بھانپنا ، دونوں ملکوں کے درمیان مثبت فضا کا پیدا ہونا ترکی کی جانب سے دوبارہ یورپی یونین کی رکنیت کے معاملے پر توجہ دینے کا موجب بنا ہے۔ بڑھنے والے بیرونی خطرات جرمنی کے ترکی سے متعلق کہیں زیادہ پر احتیاط پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا پیش کر رہے ہیں۔