ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 29

امریکہ کے منبج میں دہشت گرد تنظیم کے خلاف ترکی کے ساتھ مطابقت پر ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا جائزہ

1016760
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 29

جمہوریہ ترکی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رخ  عفرین  کے بعد منبج کو موڑ دیا ہے۔ اس علاقے کے حوالے سے امریکہ اور ترکی کے مابین مطابقت قائم ہو گئی ہے۔  اس پیش رفت کی روشنی میں منبج   کے معاملے کا جائزہ اتاترک یونیورسٹی  کے بین الاقوامی تعلقات  کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کےقلم  سے۔۔۔۔

منبج  ، حلب سے منسلک شہر کے مشرق میں واقع ایک تحصیل ہے۔ یہ  دریائے فرات کے کنارے سے 35 کلو میٹر جبکہ ترکی کی سرحدوں سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ منبج مشرقی حلب کا اہم ترین مرکز ہے جو کہ اپنی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ایک بڑا علاقہ ہے۔ اپنے قدرتی وسائل، پیداوار اور ذخیرہ اندوزی کے گوداموں  اور حلب تک پھیلے ہوئے علاقے  کے تجارتی مرکز ہونے کی طرح کی  خصوصیات کی بنا  اس کی اقتصادی اہمیت بھی بلند سطح پر ہے۔ علاقے کی  بجلی اور پانی کی ضرورت  کو بھی منبج کے وسائل سے پورا کیا جاتا ہے۔ منبج کی انتظامیہ  کو چلانے والے حلب اور راقہ کے درمیانی علاقے  کی اقتصادی، قدرتی وسائل اور تجارت کا  کنٹرول اسی علاقے سے ممکن ہے۔

منبج  نے شام میں سن 2011 میں چھڑنے والی عوامی بغاوت   کی شروع سے ہی حمایت کی تھی۔ یہ علاقہ 17 جولائی سن 2012 کو  مخالفین کے زیرِ کنٹرول آ گیا۔  داعش   نے اپریل 2013 سے اس علاقے میں ڈھیرے جمانے شروع کیے۔ اس سلسلے میں منبج کے مخالفین اور داعش کے مابین  چھوٹی  موٹی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ عوام کے داعش کے خلاف ردعمل میں اضافے کے ساتھ سن 2014  کے اوائل میں منبج کے گروہوں نے داعش کو علاقے سے نکال باہر کرنے کے لیے آپس میں اتحاد قائم کیا اور انہوں نے جنوری 2014 کو اس تنظیم سے نجات پا لی جس کے بعد یہ شہر 15 روز تک مخالفین  کے زیرِ کنٹرول رہا۔ بعد ازاں  داعش نے منبج پر کہیں زیادہ  طاقتور طریقے سے حملے کیے اور 21 جنوری سن 2014 کو اس پر اپنا کنٹرول   قائم کر لیا۔ اس پیش رفت کے بعد امریکی تعاون و حمایت کی  حامل وائے پی جی  کی قوتوں نے شہر کو   داعش سے نجات دلاتے ہوئے  اپنی حاکمیت قائم کر لی۔

منبج کی ڈیموگرافک ساخت کا تاریخی اعتبار سے جائزہ لینے سے  اس کے ایک  مختلف ماخذ  کی خصوصیات کے مالک ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ تاہم گزشتہ 50 برسوں میں بدلنے والے نفوس کے ڈھانچے  کے نتیجے میں منبج سنی عرب شناخت کا حامل ایک علاقہ بن گیا۔ اس بات کا تخمینہ لگایا  گیا ہے کہ سن 2017 کے آخیر پر اس کی آبادی 6 لاکھ تک  تھی۔

تحصیل میں مقیم اور منبج کے رہائشی ہونے کے باوجود اپنی زندگیوں کو کسی دوسرے مقام پر بسر کرنے والے ذرائع کے مطابق منبج میں نسلی گروہوں کی شرح نفوس کچھ یوں ہے:90فیصد عرب، 5 فیصد کرد، 4 فیصد ترکمان، 1 فیصد سرقافی۔

منبج کے ترکمان دیہات  شہری  مرکز کے شمال میں واقع ہیں، ان دیہاتوں کی تعداد 8 ہے۔  منبج کے مرکزی مقام پر آباد ترکمانوں کی شرح 4 تا 5 فیصد ہے۔ یہ لوگ  وسیع  کنبوں کی شکل میں  یہاں پر آباد ہیں۔ تا ہم  عرب لوگ  انہیں اجتماعی ترکمان قبیلے کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔

جب  یہاں پر داعش کا قبضہ تھا تو عوام کی واحد تمنا اس خونی دہشت گرد تنظیم سے نجات  حاصل کرنا تھی۔ یہی وجہ ہے جب وائے پی جی /PKK کی قوتیں اس تحصیل میں داخل ہوئیں تو انہیں سنجیدہ سطح پر کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منبج کے عوام میں PKK  کے خلاف نکتہ نظر میں  تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ PKK کے دباؤ میں اضافے اور اس کے ساتھ قربت  رکھنے والے کردوں  کو امتیازی   اختیارات  دیے  جانے  نے عوام  میں  ردعمل کی فضا پیدا کرنی شروع کر دی۔  اس ردِ عمل کا ایک دوسرا عنصر بنیادی خدمات  کے حصول میں دشواریاں  تھا۔

وائے پی جی /PKK منبج میں سٹریٹیجک علاقوں  سے جبراً نقل مکانی کرانے پر عمل درآمد کررہی ہے۔ اس طرح شہریوں کے مال  و دولت پر قبضہ جمانے کی کاروائیوں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ اگر کوئی  شہری ترکمان  یا پھر   عرب  ہوتا ہے تو اس حوالے سے مسائل سے دوچار ہونے کا احتمال قوی ہے۔ فرات ڈھال علاقے میں یا پھر ترکی کے اندر سیاسی سرگرمیاں  جاری رکھنے والے  منبج کے رہائشیوں  اور ان کے عزیز و اقارب کے مال  و ملک   پر قبضہ جمایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر   شامی ترکمان مجلس کے صدر ڈاکٹر وجیح جمعہ کی تمام تر جائداد ضبط کر لی گئی ہے۔

یہ  ایک حقیقت ہے کہ PKK  منبج سے انخلاء کے حق میں نہیں۔ دہشت گرد تنظیم  نے  وہاں  پر مستقل  بنیادوں پر ڈھیرے جمانے کی سوچ کے ساتھ علاقے کو مابوک   نام سے منسوب کیا ہے۔ تا ہم ، یہ جانتی ہے کہ امریکی تحفظ کے خاتمے پر اس کا علاقے میں قیام ناممکن ہو گا۔ کیونکہ ترکی  نے اس علاقے پر حالیہ ایام میں اپنے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔  جس نے امریکہ کو منبج کے معاملے میں نیٹو کے اتحادی ملک ترکی اور  دہشت گرد تنظیم کے درمیان  کسی حل چارے کو تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ کوششیں جون 2018 میں بار آور ثابت ہوئیں۔  جس کے مطابق وائے پی جی کے تمام تر عناصر اس مقام سے انخلاء کر دیں گے، امریکی اور ترک افواج علاقے کی مشترکہ طور پر نگرانی کریں گی، منبج کے لیے ایک نئی سول کونسل کا  قیام عمل میں لایا جائیگا اور اس کے اصلی مکینوں کی اپنے گھر بار کو واپسی کا موقع فراہم کیا جائیگا۔ دونوں ملکوں کے بیچ منبج  ماڈل کو دریائے فرات کے مشرقی علاقوں  میں بھی لاگو کیے جانے کے معاملے میں  مطابقت طے پا گئی ہے۔

ترکی یہ جانتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ  طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں علاقے میں منظر عام پر آنے والی صورتحال کے درمیان  سنجیدہ سطح کا فرق ہو گا۔  تاہم یہ  اٹھائے جانے والے محدود  اقدامات  کو فی الوقت ایک عبوری  سلسلے کی ایک  کڑی کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک صحیح فعل ہے کیونکہ محدود اقدامات  بذاتِ خود بھی منبج میں ٹھوس اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔

آئندہ کے سلسلے  میں چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو  میں نہیں سمجھتا کہ ترکی PKK کے خلاف اپنی جدوجہد کوختم کر دے گا۔ لہذا منبج اور مشرقی فرات کے معاملے میں طے پانے والے معاہدوں پر عمل درآمد کے مرحلے میں کسی مسئلے کے سامنے آنے کی صورت میں ترکی اور امریکہ کے ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑا ہونے کا احتمال بھی موجود  ہے۔ یہ صورتحال ترکی  کے اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کی حقیقت  کو آشکار کرتی ہے۔جی ہاں ، ترکی منبج اور دریائے فرات کے مشرقی علاقے کو PKK سے پاک کرنے  کے لیے کہیں زیادہ توانائی، وقت اور وسائل کو خرچ کرنے  پر مجبور بن سکتا ہے۔ لیکن  یہ صورتحال ترکی کے اس ضمن میں عزم کو محتمل طور پر متاثر نہیں کرے گی۔ چونکہ   ترکی نے اس جیسی ایک دوسری مثال کو عفرین میں شاخِ زیتون کاروائی کی شکل میں دنیا بھر کے سامنے پیش کیا ہے۔



متعللقہ خبریں