عالمی نقطہ نظر29

ایک قابض عالمی تحریک کا نام: فیتو

1013974
عالمی نقطہ نظر29

 

Küresel Perspektif  / 29

Yeryüzünü İstila Hareketi Olarak FETÖ

 

Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL

 

 

 

 

گزشتہ  جائزے میں ہم نے 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت  کے تناظر میں فیتو تنظیم   ،اس کے کارندوں  اور نام نہاد اسلامی عقائد کی آڑ میں   ان کے گھناونے  عزائم پر روشنی ڈالی تھی ۔

 ایک  خفیہ اور  مقدس   عقیدے  کو بنیاد بنا کر   یہ تنظیم  اپنے کارندوں کو تیار  کر کے  دیگر ممالک   روانہ کرتی تھی    جہاں اُن کا پہلا  کام  ترک اسکول اور فلاحی انجمنیں قائم  کرتےہوئے مقامی آبادی کی آنکھوں  میں دھول جھوکنا ہوتا تھا    ۔تنظیم کا مقصد  مقامی آبادی کو سبز باغ دکھا کر اپنی تنظیم میں شامل کرنا  اور اُنہیں وہاں کے حساس اور اہم اداروں میں فائز کروانا ہوتا تھا۔ اگر اس تنظیم  کے مقاصد کا  گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس  نے اپنے زیر اثر کارندوں کو   حساس  اداروں  جیسے  پولیس، وزارتوں ، فوج،سرکاری بینکوں اور دیگر  محکموں میں  تعینات کروایا ۔ان کارندوں میں  راسخ العقیدہ    ،روشن خیال   سوشلسٹ  حتی  مسیحی  افراد بھی شامل ہوتے تھے  تاکہ کسی کو اس تنظیم کے  اصل  حقائق معلوم نہ ہوسکیں ۔

 یہ عیاں ہے کہ  تنظیم کا سرغنہ فتح اللہ گولن  جسے  اس کے مرید امام کائنات کے نام سے پکارتے رہے  اس نے  ترکی سمیت ساری دنیا کو اپنے جال میں پھانسنے  کا پورا  ارادہ رکھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تنظیم کے 170 ممالک میں    ہاتھ پھیلے ہوئے تھے  جن میں سے بعض میں تو اس نے فرضی اور دیگر ناموں سے اپنی مذموم    سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔ اس تنظیم کی  سرگرمیاں مسلم   کے علاوہ غیر  مسلم ریاستوں میں  بھی کافی حد تک پھیلا ہوا تھا  جس کا راز فااش کرنے کے بعد  ترکی نے ان ریاستوں کو محتاط  رہنے  کی تنبیہہ کی جو کہ  اُن کےلیے خطرہ بنتی جا رہی تھی ۔

 اس تنظیم نے بعض ممالک میں  تو جعلی  طریقوں  سے  سماجی و فلاحی تنظیموں کا قیام   جاری رکھا ہوا ہے ۔

 چند سال پہلے تک اس بات کا گماں بھی نہیں تھا کہ یہ  تنظیم اتنی خطرناک ہو گی ۔

اس تنظیم  کی سب سے بڑی طاقت انسان کی    نیک نیتی اور صاف دلی  تھی    جس نے انہیں بہکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی  اور انہیں آہستہ آہستہ   کمزوریوں   کے سہارے اپنا گرویدہ بنا لیا ۔

    جمہوریہ ترکی اور اس کی  عوام       نے  بر وقت اپنے جذبہ  ایمانی  اور  حب الوطنی کے ذریعے  اس تنظیم کا کریہہ چہرہ فاش  کر دیا  اور اس  کی جڑوں کو سرکاری  و  نجی اداروں سے کاٹنےکے لیے حکومت   نے دن رات  کوششیں صرف کیں اور کرنا  جاری رکھا ہوا ہے۔  اس وقت یہ تنظیم  اپنے گٹھنے  ٹیک چکی ہے  اور اس کی افادیت اور رسوخ  فی الوقت ماند پڑ چکا ہے مگر تاحال  خطرہ ہے  کہ  امریکی ریاست پینسلوانیا میں  مقیم  تنظیم کا سرغنہ  اور اس کے چیلے   کسی  خود کش حملہ آور کی طرح  حکم  کے منتظر بیٹھے ہیں ۔   حال ہی میں    ترکی میں متعین روسی سفیر    کارلوف کو    سرعام  ہلاک کرنے کا واقعہ بھی  اس کی کڑی نظر آتا ہے جس کا مقصد   ترک۔روس تعلقات  خراب کرنا تھا  مگر ایسا نہیں ہو ا۔ اس تنظیم کے  بظاہر معصوم نظر آنے والے  کارندے  اس وقت  بعض ممالک میں آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آ رہے ہیں  ۔ یاد رہے کہ    اس طرح کے سفاک  درندوں کو انسانی   اوصاف کا دوبارہ مالک بنانے تک     مہذب دنیا اور انسانی معاشرہ چین کی نیند نہیں سو پائے گا۔

دور جدید میں  بعض خفیہ ایجنسیاں  تعاون  میں پیش پیش ہیں  جن کے خیال میں ان کارندوں کو  وہ اپنے ہاتھوں  جب چاہیں نچوا سکتے ہیں۔ اس تنظیم کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو  معلوم ہوتا ہے کہ  اس نے کسی بھی ملک سے پائیدار تعلقات استوار  نہیں کیے  کیونکہ  ان کا مقصد اپنے عزائم کو حقیقت کا روپ دینا  تھا  یہی  وجہ ہے کہ  وہ ان خفیہ اداروں  کےلیے آج ایک خطرہ بن چکی ہے۔

 خواہ کچھ بھی ہوا   مگر یہ  واضح ہو گیا ہے   صدر ایردوان کی  کوششوں   اور ترک عوام کی  بے دریغ قربانیوں سے اس تنظیم کا  گھناونا  چہرہ دنیا کے سامنے لایا گیا  ۔

دنیا   اس سلسلے میں    ترک صدر رجب طیب ایرودان کی ہمیشہ مقروض رہے گی۔

 یہ جائزہ آپ کی خدمت میں  انقرہ کی  یلدرم با یزید  یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا  گیا ۔



متعللقہ خبریں