ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 28

ترکی میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے بعد نئے صدارتی نظام کے ترک خارجہ پالیسی پر ممکنہ اثرات کا جائزہ

1012450
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 28

ترکی میں 24 جون کو  ہونے والے صدارتی و پارلیمانی انتخابات  کا سلسلہ اپنے انجام کو پہنچا ہے،  ترکی کے انتخابات اور اس کے  ترک خارجہ پالیسی  پر اثرات کا  جائزہ اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات  کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دو آچ اپیک کے قلم سے۔۔۔

جمہوریہ  ترکی  میں 24 جون کو منعقدہ  صدارتی و پارلیمانی انتخابی عمل اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ مغربی ممالک سمیت دنیا بھر  کی نگاہیں ان انتخابات پر لگی ہوئی تھیں۔یہ صورتحال  ترکی کے بتدریج بڑھنے والے علاقائی  و عالمی کردار کی اہمیت کا مظہر ہے۔

صدارتی انتخابات میں صدر رجب طیب ایردوان جبکہ  پارلیمانی انتخابات میں اتحادِ جمہور  فتح سے ہمکنار ہوئے۔ انتخابات میں  بلند سطح کی  شرح شراکت  قابل ذکر  پیش رفت ہے۔ یہ چیز ترک ڈیموکریسی کے کس مرحلے تک پہنچنے ، اقتدار کی   سرکاری حیثیت اور رائے عامہ کے حمایت و تعاون کی بھی تشریح کرتی ہے۔

انتخابات سے پیشتر  نسبتاً پس ِ پردہ رہنے والی خارجہ پالیسیوں میں ایک دم  حرکت آنے لگی۔ کیونکہ  حکومت کی مصروفیات   بہت زیادہ ہیں  ، دوسری جانب دنیا بھر میں  سرعت سے تبدیلیوں کا عمل بھی جاری ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کی خارجہ پالیسیوں میں ایک نئے دور  کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ کیونکہ  انتخابی عمل کے بعد ترکی کے ایجنڈے میں  سر فہرست  دو  معاملات ہیں۔  پہلا معاملہ خارجہ پالیسی جبکہ دوسرا معاملہ خارجہ پالیسی سے ہی تعلق رکھنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔

آئندہ کے سلسلے میں یورپی یونین سمیت مغربی ممالک  ترکی کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ  آئندہ کے  چھ ماہ کے دورانیہ  کے لیے یورپی یونین  کی عبوری صدارت کو سنبھالنے والے آسڑیا   کے دور میں  اس حوالے سے تیز رفتار اقدامات   اٹھائے جائیں گے۔ تا ہم ماضی کے مقابلے میں  کہیں زیادہ  سرعت    کے حامل ایک سلسلے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مہاجرین کا مسئلہ تا حال  حل نہیں کیا جا سکا اور  ترکی کے بغیر اس مسئلے کا حل مشکل دکھائی دیتا ہے۔

 امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات  میں گزشتہ دو۔ تین سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ  معتدل دور کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ کیو نکہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  ترکی کےساتھ اچھے تعلقات کے متمنی ہیں۔ واشنگٹن  بیوروکریسی میں  بعض  بیوروکریٹس اور فوجیوں کے ترکی مخالف ہونے کی حقیقت عیاں ہے۔ تاہم ترکی مذاکرات کی میز پر شاخ ِ زیتون کاروائی اور منبج مطابقت  کی وساطت سے  ملنے والے اعتماد کے ساتھ بیٹھ رہا ہے۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات اندرونی و خارجی سلامتی سے لیکر خارجہ پالیسی تک، اقتصادیات سے لیکر فنانس تک، پبلک ڈپلومیسی  سے لیکر قانونی مسائل تک ایک وسیع پیمانے کے ایجنڈے  پر مبنی ہیں۔  امریکہ کے ساتھ درپیش مسائل، ترکی کے  تیسرے فریقین (مملکتوں، نیٹو، یورپی یونین کی طرح کے اداروں، نجی فرموں)   کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ بلا شبہہ یہ منفی پیش رفت امریکہ کو بھی متاثر کر رہی  ہے اور کرے گی۔

عصرِ حاضر میں امریکہ۔ترکی تعلقات  ایک سنجیدہ سطح کے بحران  کے شکار ہیں۔  ایس ۔400 فضائی   دفاعی نظام ، اس بحران کی علامت ہے۔ امریکہ ترکی   کو اس کے فیصلوں سے باز رکھنے پر مصر ہے۔ تا ہم اصل مسئلہ ، اس   کاموقع فراہم کرنے  والی حکمت عملی  کا تعین کرنے میں  پوشیدہ ہے۔ ترکی کو اس کے اٹل فیصلوں سے باز رکھنے کے  لیے عمل درآمد کی جانے والی حکمت عملی  آیا کہ سخت گیر پابندیوں یا پھر نرم  سفارتی آمادگی  کوششوں پر مبنی ہو گی، یہ چیز  واضح نہیں ہے۔ سخت گیر پابندیاں امریکی انتظامیہ کے لیے زیادہ  عقل مند ثابت نہیں ہو سکتیں۔  کیونکہ یہ عمل سلامتی کے میدان میں  ترکی کو مشکلات سے دو چار کرے گا تو بھی اس سے حسب منشاء نتائج برآمد نہیں کیے جا سکتے۔  وگرنہ  یہ چیز ترکی کو مغربی دنیا سے  دور لیجانے والے  راستے  کی جانب دھکیل سکتی ہے۔

صدر رجب طیب ایردوان نے انتخابات کے بعد اپنے خطاب میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد   پر خاص طور پر زور  دیتے  ہوئے اس حوالے سے عزم کا اظہار کیا۔ یہ چیز صرف رائے دہندگان کے مطالبات    تک ہی محددد نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ ترکی کا دہشت گردی کا مسئلہ ہر گزرتے دن مزید زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس میں عالمی، علاقائی اور اندرون ِ ملک کی پیش رفت کا کردار  واضح اور عیاں ہے۔ اس بات کا امکان قوی ہے کہ آئندہ کے دور میں یہ معاملہ کہیں زیادہ   وسیع پیمانے پر ایجنڈے میں جگہ پائے گا۔

ترکی  کے گرد ونواح   کے علاقوں میں ہونے والی کاروائیاں اور اتحاد  شام، عراق اور ایران کے بارے میں  نت نئی پیش رفت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ خاصکر  مسئلہ  شام کےلب لباب میں  یہ عمل تبدیلیاں لا رہا ہے۔ دوسری جانب صدر ایردوان   انسداد ِ دہشت گردی پر زور دیتے وقت  اس مسئلے کے محض تنظیم کی شکل میں بیان  نہ کیے جا سکنے  سے بخوبی آگاہ ہیں۔ علاقائی پیش رفت ہمیں دہشت گرد تنظیم  سے بھی بڑھ کر مسائل کی موجودگی   کا اشارہ دیتی ہے۔

میرے خیال میں آئندہ کے سلسلے میں ترک خارجہ پالیسی میں  مندرجہ ذیل تین معاملات پیش پیش رہیں گے۔

  • جدید: عالمی  پیش رفت کا قریبی طور پر جائزہ لینے والا اور پرو ایکٹوسیاست پر عمل پیرا ترکی
  • قوم پرست: خارجہ پالیسی میں ترک قوم  اور ترک برادری  کے اولیت کے معاملات پرتوجہ دینے والا   اور اس ضمن میں وسطی ایشیا کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے والا ترکی۔
  • قدامت پسند: تمام تر مظلوم اقوام  اور مسلمان طبقوں  کے ساتھ روابط کو مزید تقویت  دینے والا ترکی۔

نتیجتاً ترک ملت نے ان انتخابات کے ذریعے جمہوریہ ترکی  کی  دوسری مرکزی تبدیلیوں کو صدر ایردوان کے ذریعے  عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ دیا ہے۔  (پہلی تبدیلی سن 1950 میں  جمہوری زندگی کو ڈیموکریٹ پارٹی اور وزیر اعظم عدنان میندرس  کی بدولت عملی جامہ پہنانے کی کوشش پر مبنی تھی۔) پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام  کو منتقلی کا بیڑہ آئندہ کے 5 برسوں  کے لیے رجب طیب ایردوان نے اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے پہلا  تجربہ  فطری طور پر ایک کٹھن   مرحلہ ہو گا۔ ازسر نو نشاط کا کام بیک وقت  نئے سرے  سے جانبری کا بھی موقع فراہم کر ے گا۔ نئے نظام کو اپنانے کی وساطت سے مزید طاقتور بننے والا ترکی اس طرح خارجہ پالیسیوں میں کہیں  زیادہ مؤثر ہونے کا موقع حاصل کرے گا۔



متعللقہ خبریں