عالمی نقطہ نظر28
15 جولائی 2016 ایک خون ریز کٹھ پتلی تماشا
Küresel Perspektif / 28
15 Temmuz: Katil Robotların Kanlı Kalkışma
Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL
بعض عناصر اپنے ہاتھوں میں ناچتی بعض بے قابو برقی کٹھ پتلیوں کی مدد سے ایک خصوصی مشن کو پورا کرنے کےلیے انسانیت کو درپیش خطرات سے بچانے کےلیے ڈرامہ رچاتے ہیں جو کہ ہمیں صرف فلموں میں ہی نظر آتا ہے۔
ترکی میں 15 جولائی 2016 کو ایک ایسا ہی واقعہ رونماہوا جس میں سرکاری اداروں کی دیواروں کو کسی دیمک کی طرح چاٹنے والی اور بظاہر معصوم نظر آنے والی فیتو تنظیم نے حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی ۔
ترک مسلح افواج سمیت دیگر سرکاری اداروں میں پسو کی مانند سرایت کرنے والے اس تنظیم کے شر پسندوں نے امریکہ میں نام نہاد جلا وطنی کاٹنے والے فتح اللہ گولن کی ہدایات پر ملکی نظام پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور وقتی طور پر ٹی آر ٹی اور سی این این ترک جیسے نشریاتی اداروں کو قبضے میں بھی لیتےہوئے ترک پارلیمان پر بمباری کر دی اور منتخب شدہ صدر کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا جس پر جرات مند ترک قوم نے سڑکوں پر نکل آئی مگر اس کم ظرف تنظیم کے پیادوں نے عوام پر بھی گولیاں چلانے سے دریغ نہیں کیا جس کے نتیجے میں ترکی کو سینکڑوں شہدا کا خون برداشت کرنا پڑا۔
صدر رجب طیب ایردوان کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے قوم نے جمہوریت اور اپنے مستقبل کو بچانے کےلیے جو بھی اس رات کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سڑکوں پر نکل آیا اور اہم سرکاری و نیم سرکاری اور نجی اداروں کو اپنے محاصرے میں لےلیا اور فیتو تنظیم کے کارندوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور وقت پڑنے پر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ۔
ماضی میں بھی ترکی میں بغاوتیں ہوئیں لیکن اب کی بار معاملہ ذرا مختلف تھا جس میں بعض جنونی فوجیوں نے اپنی ہی عوام پر گولیاں برسانے میں پہل کی ۔ اس بغاوت کو ناکام بنانے میں قوم ایک ہو گئی مختلف طبقہ فکر بھی ملک و قوم کو بچانے کے لیے ایک چھتری تلے جمع ہو گئے اور اس وحشیانہ اقدام کو ناکام بنانے میں تمام امکانات صرف کیے ۔ عوام نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی مگر اس میں کسی قسم کی لوٹ مار نہیں کی اور اپنے جمہوری حقوق کا بھرپور مظاہرہ کیا جو کہ دنیا کےلیے ایک مثال بن گئی جو کہ تاریخ بھر یاد رکھا جائے گا۔
فیتو تنظیم تاحال ایک معمہ بنی ہوئی ہے جس کے کارندے اپنے لیڈر فتح اللہ گولن کی مسیحائی کا دعوی کرتےہوئے دنیا بچانے کا واحد دعوے دار سمجھتے ہیں۔اسی مقصد کے تحت
فیتو تنظیم اپنے کارندوں کو سخت تربیت کے طابع رکھتے ہوئے انہیں معاشرے سے باغی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی جنہوں نے اپنی خصوصی محافل میں شرکت کرنے والوں کو سبز باغ دکھاتے ہوئے اپنا گرویدہ بنا نا شروع کر دیا ۔ اپنی اسی ہوس کو پروان چڑھاتےہوئے اس تنظیم نے اپنے ناپاک ہاتھ دیگر ممالک تک پھیلانا شروع کر دیئے اور اسلام کی آڑ لیتے ہوئے لیڈر کو امام کائنات کا رتبہ دے دیا ۔
اس تنظیم کے کارندے اپنے اعتقاد کے ذریعے معصوم انسانوں اور ان کے خاندانوں کو آہستہ آہستہ اپنے جال میں پھنساتے رہے ۔ سن 70 کی دہائی میں شروع ہونے والی اس تحریک کے پیروکار اپنے بچوں کو تنظیم کے اسکولوں میں بھیجتے رہے تاکہ ان کی بھی اسی طرز پر تربیت کی جا سکے ۔
فیتو تنظیم کے کارندوں کے دماغ میں یہ فتور سماتا رہا کہ وہ ایک خصوصی،مقدس اور دینی مشن پر قائم ہیں۔ انکے لیڈر کا یہ حکم ہوتا تھا کہ وہ اپنی اصلیت پوشیدہ رکھیں اور اسے منظر عام پر نہ لائیں۔ اس مقصد کےلیے وہ اپنارہن سہن ،طرز لباس اور عقائد کو بھی حسب ضرورت تبدیل کرتے رہتے تھے ۔
ان کی نیت اور اعمال کا سارا انحصار انسانیت کی بھلائی کےلیے نہیں بلکہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے میں صرف تھا۔
یہ جائزہ آپ کی خدمت میں انقرہ کی یلدرم با یزید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔