ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 24

روسی اسلحہ خریدنے پر امریکہ کے رد عمل کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا جائزہ

993469
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ  24

جمہوریہ ترکی کے  اپنی فضائی دفاعی  استعداد کو وسعت دینے  کے زیر ِ مقصد روس سے ایس۔400 قسم کے میزائلوں کو خریدنے کے  فیصلے پر اندرون و بیرون ِ ملک بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ اس بحث کی روشنی میں ترک قومی دفاعی نظام کے امور کا جائزہ  اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک    کے قلم سے۔۔۔

جمہوریہ ترکی عسکری و سفارتی حربوں کی بدولت علاقائی طاقت  کی حیثیت میں مضبوطی لا رہا ہے، یہ طویل عرصے میں ایک عالمی طاقت بننے کی راہ میں پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس پیش رفت کو سرعت ، دفاعی صنعت کو تقویت اور قومی حیثیت  دلانے کے  زیرِ مقصد ترکی ایک طویل عرصے سے بعض اقدامات پر کام کر رہا ہے۔

شام میں افراتفری اور جھڑپوں کے ماحول کے خانہ جنگی  کی  ماہیت اختیار کرنے، عراق اور شام میں داعش اور PKK کی طرح کی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی ترکی    کی  اس ضمن میں کوششوں اور  اقدام  میں تیزی  آنے کا موجب بنی۔  ترکی کے گرد  و نواح    کے علاقوں میں بلند سطح کے خطرات  کی بنا پر راکٹ۔ میزائل نظام  کی مدد سے   کیمیاوی ہتھیاروں کے خلاف ترکی کا مختلف تدابیر اختیار کرنا ایک نا گزیر فعل تھا۔ لہذا  ترکی کی عراق و شام پالیسیوں کے تعین میں یہ خدشات  نمایاں رہتے ہیں۔شام پالیسیوں میں بعض  ترامیم ، PKK۔وائے پی جی کے معاملے میں امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا                اور  روس کے ساتھ تعاون  کے رحجان  کی وجوہات  میں یہی خدشہ کار فرما رہا ہے۔

شام کے حوالے سے اوبا ما انتظامیہ   نے  ترکی مخالف ہونے والی PKK۔ پی وائے ڈی۔ وائے  پی  جی  تنظیموں  کے حق میں اپنی پالیسی اختیار کی تھی۔  اب ٹرمپ انتظامیہ بھی اسی پر کارفرما ہے۔ ترکی   کا روس کے ساتھ اقتصادی  وفوجی تعاون میں اضافے  کے فیصلے  کے پیچھے  خاص کر امریکہ کی ترکی سے متعلق پالیسیاں کار فرما ہیں۔

نیٹو کے رکن  ملک ترکی  کے میزائل خطرات سے دو چار ہونے  کے باوجود پیٹریاٹ فضائی دفاعی نظام  کو  نیٹو نے ترکی کو کافی دیر سے دیا تھا۔ اسپین  کے علاوہ کے ممالک میزائل شکن بیٹریوں  کو  کچھ ہی مدت بعد  اکھاڑ کر واپس لے گئے۔آج PKK ۔ وائے پی ڈی ۔وائے پی جی  کے  پاس نیٹو نژاد  ہلکا اور بھاری اسلحہ موجود ہے۔ نیٹو کے پاس موجود ہو سکنے والے  فوجی دھماکہ خیز مواد کو استنبول  میں استعمال کیا گیا۔ فیتو کی 15 جولائی کے ناکام  خونی  اقدام  کے سامنے مغربی ممالک نے خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی، ان  تمام  واقعات نے  ترکی کو متبادل کی تلاش  کی جانب دھکیلا۔

علاقائی سطح پر ترکی کا فضائی دفاعی نظام ایک طویل عرصے سے خطرات سے دو چار ہے۔ دو ہزار کی دہائی کے اوائل تک ترکی کے پاس نائیک ہرکولیس  ہوائی دفائی نظام موجود تھا، جو کہ سوویت یونین کے  پرانے  لڑاکا طیاروں کے  خلاف مدافعت کر سکنے کا حامل تھا اور یہ جدید  طیاروں کے خطرات کے سامنے  کافی کمزور تھا۔ یہ کمزوری پہلی اور دوسری عراق کاروائی  سمیت شامی  بحران  کے دوران ترکی کے  نیٹو سے مدد  مانگنے کا موجب بنی۔   جس پر نیٹو نے ترکی کو پیٹریٹ بیٹریز روانہ کیں ، لیکن یہ ایک عارضی اور ناکافی  سطح کا حل   تھا۔

ترکی  نے اس مسئلے کا حل چارہ تلاش کرنے کے لیے طویل  المسافت کے حامل فضائی دفاعی نظام  کے حوالے  سے جاری منصوبے پر ٹینڈر کھولا۔  جس میں امریکہ،  روس، چین ، فرانس اور اٹلی کی فرموں نے  اپنے اپنے نرخ پیش کیے۔ موزوں نرخ، مشترکہ تیاری، ٹیکنالوجی کے لین دین اور تیز رفتاری سے  حوالگی  جیسے عوامل کو  مدِ نظر رکھے جانے پر چینی فرم  کی پیش کش اول نمبر پر رہی۔ دوسرے نمبر پر اٹلی۔ فرانس  شراکت دار فرم یورو سام رہی تو امریکی فرم نے مشترکہ تیار ی اور ٹیکنالوجی   کی فراہمی کی ضمانت  نہ دی   ۔  ترکی اور چینی فرم  کے درمیان مذاکرات  ہوئے۔  لیکن  چین کے نیٹو کا رکن نہ ہونے اور مذکورہ فرم  کے امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کردہ فرموں کی فہرست میں شامل ہونے کی بنا پر  امریکہ اور نیٹو نے رد عمل کا مظاہرہ کیا۔   جس کے نتیجے میں  ترکی اور چینی فرم کے درمیان معاہدہ طے نا پا سکا اور ٹینڈر کی منسوخی کا اعلان کر دیا گیا۔

روس کی جانب سے پیش کش کی مالی سطح میں کمی،  ترکی۔روس تعلقات میں  بہتری  کا عمل  اور  مغربی اتحادی  ممالک کی  کلیدی اور نازک معاملات میں ترکی کے سامنے  بے حسی  جیسے  اسباب کے پیش نظر  ترکی نے روس  کے ایس۔400 میزائل نظام کو  خریدنے کا فیصلہ کیا۔

مگر اب کی دفعہ یہ ترجیح نیٹو کے بعض  رکن ممالک کے ردعمل کا  موجب بنی،  ان رد عمل کے باعث   اس بات کا احتمال  قوی ہے کہ نیٹو ، ایس ۔400 نظام کو اس کے نظام  کے ساتھ  ملائے جانے کو قبول نہیں کرے گا۔ اس صورت میں  ترکی  اس نظام کو نیٹو نظام سے خود مختار رہتے ہوئے   اور محض نصب  ہونے والے مقام کے تحفظ  کے لیے استعمال کرے گا۔ تا ہم ترکی کو شروع شروع میں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس کا موجودہ فضائی دفاعی نظام مکمل طور پر نیٹو کے نظام  سے ہم آہنگ ہے۔ اگر نیٹو اور امریکہ ترکی کے  اس طرز کے متبادل سے بے چینی محسوس کرتے ہیں تو   پھر انہیں خطے میں قابل ِ قبول طاقت کے توازن کے قیام کے لیے ترکی کے خدشات کو   سمجھنا اور اور ترکی کے ساتھ مل کر کام کرنے  کو ترجیح دینی ہو گی۔

نتیجتاً فضائی دفاعی نظام ایک دوسرے کے ساتھ مدغم  ہونے والے ایک ڈھانچے کا حامل  ہے۔  کوئی بھی نظام واحدانہ طور پر حل نہیں ہو سکتا  اور نہ ہی ناقابل گزر دیوار تعمیر  کر سکتا ہے۔  فضائی دفاعی نظام، ڈراؤن طیارے ، ہیلی کاپٹرز ، طیارے، میزائل اور بالسٹک میزائل کے  خلاف میزائل اور ان کا کنٹرول کرنے والے   نظام کے ساتھ یکسانیت  قائم کرتا ہے۔   ترکی کی جانب سے طاقتور اور قومی دفاعی نظام کا قیام خطے  کی امن و سلامتی کے اعتبار سے ایک انتہائی اہم پیش رفت ہو گا۔



متعللقہ خبریں