حالات کے آئینے میں۔ 20

حالات کے آئینے میں۔ 20

975083
حالات کے آئینے میں۔ 20

حالات کے آئینے میں۔ 20

پروگرام " حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ سامعین  مشرق وسطی میں ترکی کے اور اصل میں عالمی رائے عامہ کی گہری دلچسپی کے دو اہم   واقعات پیش آئے۔ پہلا واقعہ امریکی سفارت خانے  کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی  اور اسرائیل کا 60 نہتے  فلسطینی مظاہرین کو ہلاک کرنا اور  2770 شہریوں کو زخمی کرنا تھا۔ جبکہ دوسرا واقعہ عراق کے انتخابات میں شعیہ لیڈر  مقتدیٰ الصدر  کا کامیاب ہونا تھا۔

سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی تحقیقات کے وقف SETA  کے محقق اور مصنف جان آجُون  کا موضوع سے متعلق جائزہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کے اسرائیل میں امریکہ کے سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کا اعلان کرنے کے بعد دنیا کے متعدد مقامات سے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک بڑی اکثریت نے امریکہ کے سفارت خانے کو منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف مسودہ بِل کو قبول کیا  اور امریکہ نے سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق استعمال کر کے بل کی منظوری کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی۔ دوسرے مرحلے میں اقوام متحدہ کی جنرل کمیٹی میں لایا جانے والا مسودہ بِل تقریباً تقریباً پوری دنیا کی طرف سے قبول کیا گیا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل کمیٹی  کے فیصلوں کے پابند کرنےکی صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے امریکہ کو روکنے کی صورتحال پیدا نہیں ہو سکی لیکن یہ ضرور واضح ہو گیا کہ دنیا امریکی فیصلے کے خلاف ہے۔ ترکی کی طلب پر اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس  منعقد ہوا جس میں ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی گئی اور دنیا سے حق کا ساتھ دینے کی اپیل کی گئی۔ تقریباً  پوری دنیا کے ارادے کا امریکی ویٹو کے مقابل غیر موئثر ہونا صدر ایردوان کے اس بیان کے کس قدر درست ہونے کی عکاسی کرتا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ "دنیا پانچ سے بڑی ہے"۔

صدر ٹرمپ کی کابینہ میں متعدد انجیل کے مبّلغین موجود ہیں  یہی وجہ ہے کہ ان تمام واقعات کے باوجود امریکہ کے صدر  ڈونلڈ ٹرمپ  اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے اور انجیل کے مبّلغوں کے عقیدے کا درجہ رکھنے والی پیشین گوئی کہ' بیت المقدس یہودیوں کا دارالحکومت ہو گا'  کو سچ ثابت کرنے کے لئے عزم کا مظاہرہ کیا۔   صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے لئے جس راہب کو اسرائیل بھیجا وہ متعصب یہودی مبّلغ عقائد کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں  جس وقت صدر ٹرمپ کی بیٹی اور داماد امریکی سفارت خانے کا افتتاح کر رہے تھے اس وقت فلسطینی پُر امن مظاہرے کر رہے تھے۔

حقیقی معنوں میں ایک اوپن ائیر قید خانے کی حیثیت رکھنے والے غزہ  میں    فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد کے قریب پُر امن مظاہرے کئے ۔ فلسطینیوں کے مظاہروں کے مقابل اسرائیلی فوجیوں نے  بے دردی کے ساتھ اصلی گولیوں کا استعمال کر کے 60 فلسطینیوں کو ہلاک اور 2770 کو زخمی کر دیا۔

ایک طرف فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا جا رہا تھا اور ان پر گولیاں برسائی جا رہی تھیں تو دوسری طرف بیت المقدس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ا ور داماد ایک شاندار تقریب کے ساتھ سفارت خانے کا افتتاح کرنے میں مشغول تھے۔  اسرائیل کے سرزد کردہ جرم کا ثبوت پیش کرنے والی سینکڑوں ویڈیو  اور تصاویر کے باوجود امریکی انتظامیہ کا  حماس کو قصوروار ٹھہرانا اصل میں اسرائیل کے موضوع پر امریکہ کے گستاخانہ روّیے کا عکاس ہے۔ امریکی انتظامیہ کے اس لا پرواہ طرز عمل کے بنیادی اسباب میں سے ایک عرب ممالک کا فلسطینیوں کے حقوق  کا تحفظ کرنے کی بجائے اپنے تخت و تاج کو بچانے کی خاطر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھلے بندوں حمایت کا اظہار کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حقوق کے لئے سب سے بڑی جدو جہد ترکی کر رہا ہے۔ ترکی نے کثیر تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکت پر 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ سے اسرائیل کے لئے ایک مشترکہ مذمتی اعلامیہ شائع کیا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی نے امریکہ اور اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔

حالیہ دنوں کا دوسرا اہم موضوع عراق کے عام انتخابات ہیں۔  داعش کے خلاف جدوجہد  اور جھڑپوں میں موصل، فلوجہ اور عنبر جیسے شہروں کے  منہدم ہو نے، شمالی عراقی انتظامیہ میں خود مختاری کے لئے کروائے گئے ریفرینڈم اور عراق کی  مرکزی حکومت کے کرکوک اور سنجار جیسے متعدد متنازع علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد  عراق کے عام انتخابات بہت اہمیت کے حامل تھے ۔تاہم انتخابات کی شرح کا 44 فیصد سے کم رہنا عراق میں جمہوری نظام  اور عراقی سیاستدانوں پر عدم اعتماد  کی عکاسی کرتا ہے۔

انتخابات میں عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی کی فہرست، عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی فہرست، شعیہ لیڈر مقتدیٰ الصدر کی فہرست اور ہشدی شابی گروپوں  کی فتح لسٹ  سرفہرست سیاست دانوں کی فہرستیں تھیں۔ علاوہ ازیں سنّی لیڈر اسامہ النجفی کی فیصلہ کولیشن اور شعیہ لیڈروں میں سے عمّار الحکیم  کی زیر قیادت حکمت کولیشن امیدواروں کی فہرستیں  اہم فہرستوں کی حیثیت  رکھتی تھیں۔

عراق کے انتخابات میں سابق وزیر اعظم نوری المالکی  کی فہرست  اور ہشدی شابی  کے گروپوں پر مشتمل فتح فہرست کو ایران کے حامی شمار کیا جا رہا ہے  جبکہ حیدر العبادی  اور مقتدی الصدر  امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ زیادہ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ عراق کے ہائی الیکشن کمیشن کے بیانات سے توقع کی جا رہی تھی  کہ مقتدی الصدر  کی فہرست پہلے نمبر پر رہے گی جبکہ ہشدی شابی گروپوں کی فتح فہرست دوسرے نمبر پر رہے گی۔ عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی  کی فہرست کا تیسرے اور سابق وزیر اعظم نوری المالکی  کی فہرست کا چوتھے نمبر پر آنا متوقع تھا۔ شعیہ لیڈر مقتدی الصدر کی فہرست  کے پہلے نمبر پر آنے کی توقع پر  مقتدی الصدر نے اپنے سوشل میڈیا پیج سے جاری کردہ بیان میں  شعیہ لیڈروں  کے ساتھ مل کر  حکومت بنانے کے لئے  کمپین چلانے کا اعلان کیا۔

انتخابات کے بعد عراق کی داخلہ سیاست میں ایران کی طاقت اور اثر و نفوذ میں کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ نتیجتاً عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی  کی فہرست  اور ہشدی شابی  گروپوں  کی فتح فہرستوں کی حکومت میں شمولیت کی توقع نہیں کی جا رہی۔ لیکن دوسری طرف عراق میں ایران کے اثر و نفوذ میں سیاسی حوالے سے کمزور بھی ہو جائے تو بھی فوجی حوالے سے اور اسلحے کی طاقت کے بل بوتے پر ایران عراق کی داخلہ سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنا جاری رکھے گا۔ خاص طور پر عراقی حکومت کے اندر عراقی فوج کے ساتھ دوسری مسلح فورس یعنی ہشدی شابی  گروپوں کا براہ راست ایران کی طرف سے کنٹرول کیا جا سکنا عراق کی آئندہ حکومت کے لئے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہو گا۔

جب عراق کے انتخابی نتائج کو امریکہ اور سعودی عرب  کی ایران کو مشرق وسطی میں محدود کرنے کی پالیسی کے حوالے سے غور کیا جاتا ہے تو   ایک جزوی کامیابی کا ذکر کرنا ممکن ہے۔ کیونکہ مقتدیٰ الصدر جو سالوں پہلے امریکہ کے خلاف مزاحمتی گروپوں  کی رہنمائی کر رہا تھا وہ اب امریکہ کے ساتھ بھی اور سعودی عرب کے ساتھ بھی زیادہ  اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موصل پر داعش کے کنٹرول کے بعد عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی کو امریکہ کی طرف سے  وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر متعین کیا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں عبادی نے سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی دورے کئے  اور عراق میں ایران کے  اثر و نفوذ کو کم کرنے کے لئے سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ مل کر کاروائیاں کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔

عراق کے انتخابات ترکی کے لئے  خواہ متعدد حوالوں سے اہمیت کے حامل ہوں تو  بھی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے دائرہ کار میں ایک منفرد اہمیت رکھتے  ہیں۔  لہٰذا توقع کی جا رہی ہے کہ ترک مسلح افواج عراق کے شمال میں، دہشتگرد تنظیم   PKK کے خلاف،  جاری  آپریشن کو زیادہ وسیع شکل دے دے گی۔ یہ وسیع فوجی کاروائی عراق۔ترکی تعلقات کے حوالے سے کافی حد تک ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ ترک سکیورٹی فورسز ملک کے اندر دہشت گرد تنظیم PKK کی کاروائیوں کو کم سے کم حد تک لانے اور فرات ڈھال آپریشن اور شاخِ زیتون آپریشن کے ساتھ سرحد پار دہشتگردی کی کاروائیوں کے خلاف  دکھائی گئی کارکردگی کو بھی جاری رکھنے کا پروگرام رکھتی ہیں۔

 



متعللقہ خبریں