حالات کے آئینے میں ۔ 14

حالات کے آئینے میں ۔ 14

946893
حالات کے آئینے میں ۔ 14

پروگرام "حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ برطانیہ میں سابق روسی ایجنٹ سرگے اسکریپل اور ان کی بیٹی یولیاپر اعصابی گیس کے حملے  کے بعد خاص طور پر اینگلو۔ساکسون بلاک  کے نام سے پہچانے جانے والے ممالک امریکہ اور برطانیہ اور عمومی طور پر مغربی ممالک اور روس کے درمیان سنجیدہ سطح پر کشیدگی کا آغاز ہو گیا۔ برطانیہ کی ہدایات کی پیروی میں حملے کے پیچھے روس کا ہاتھ  ہونے کا دعوی کرنے والے ممالک نے روس کے سفارت کاروں کو ملک سے نکال کر ردعمل کا اظہار کیا۔ روس کے خلاف ردعمل کے اظہار کے لئے ،امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ  اور یورپی یونین کے ممالک  سمیت کُل 25 ممالک  نے کم از کم 140 روسی سفارت کاروں کو ڈی پورٹ کر دیا۔ تاہم روس  کی وزارت خارجہ نے الزامات کی تردید کی اور اسکریپل کے واقعے میں برطانوی اسپیشل فورسز اور برطانوی خفیہ ایجنسی کو قصوروار ٹھہرایا۔ ممالک کو ایک طرف رکھ کر بین الاقوامی تنظیموں کو دیکھا جائے تو نیٹو  براہ راست روس کو ہدف بنانے  والی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ تاہم نیٹو کے رکن ملک ترکی  نے حملے کی مذمت کی لیکن نہ تو روس کو براہ راست قصور وار ٹھہرایا اور نہ ہی روسی سفارت کاروں کو ڈی پورٹ کیا۔

سیاست ، اقتصادیات اور اجتماعی تحقیقات کے وقف SETA کے محقق اور مصنف جان آجُون  کا موضوع سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

روس اور مغربی دنیا کے درمیان تناو سرد جنگ کے دور کی یاد تازہ کرے تو بھی دنیا کے تازہ حالات کے پیش نظر سرد جنگ کے بارے میں بات کرنا کچھ زیادہ ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ روس اپنے سے قریب حکومتوں کے ساتھ ایک بلاک  بنا  کر مغربی بلاک کے خلاف ایک محاذ کھولنا چاہتا ہے تو یہ ایک استدلالی تجزئیہ نہیں ہو گا۔ روس کےکریمیا  کا الحاق کرنے، یوکرائن بحران کے ساتھ تناو کا شکار ہونے والے روس۔مغربی ممالک تعلقات اور اقتصادی جنگ شروع کروانے کی حد تک آگے بڑھنے والی پابندیاں  دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا سبب بنیں۔ حالیہ اسکریپل واقعے کو گلاس کو چھلکانے والا آخری قطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم مغربی دنیا  کی داخلی کھینچا تانیوں  اور جرمنی سمیت بعض ممالک  کی  زیادہ معتدل  روسی پالیسی  پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔

روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی جاری ہے اور اس دوران ترکی ایک متوازن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ترکی خود کو کسی ایک طرف منسلک کئے بغیر اپنے قومی مفادات  پر نگاہ رکھنے والا نقطہ نظر پیش کر رہا ہے۔  اسکریپل واقعے میں، ترکی اپنے نیٹو  کے رکن مغربی اتحادیوں  کے ساتھ اتحاد کی حالت میں ہے لیکن روسی سفارت کاروں کو ملک سے نہ نکال کر  روس کے ساتھ سفارتی تناو  کے راستے میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی نے اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلے جوہری پاور پلانٹ آق کویو نیوکلئیر پاور پلانٹ  کا سنگ بنیاد رکھا اور   سنگ بنیاد کی تقریب میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور روس کے صدر ولادی میر پوتن نے شرکت کی۔ آق کویو جوہری پاور پلانٹ 4 ری ایکٹروں پر مشتمل ہے  اور پروگرام کے مطابق  پہلا ری ایکٹر سال 2023 میں فرائض کا آغاز کر دے گا۔ آق کویو جوہری پاور پلانٹ کُل 4800MW  بجلی پیدا کر کے ترکی کی بجلی کی ضرورت کے 10 فیصد کو پورا کرے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ ترک رو گیس پائپ لائن  منصوبہ بھی جاری ہے  ۔  یہ پائپ لائن پہلے مرحلے میں روس سے ترکی پہنچے گی ، دوسرے مرحلے میں بالقانی ممالک تک جائے گی۔ ترکی کے دیگر توانائی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ترک رو گیس پائپ لائن منصوبہ   بھی ترکی کو توانائی کے مرکز کی حیثیت دینے کے حوالے سے ایک اہم قدم کی  حیثیت رکھتا ہے۔

لیکن ترکی صرف روس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے رکن ممالک اور امریکہ  کے ساتھ   بھی تعلقات کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ نتیجتاً ترکی نے اگر   ایک طرف  روس سے S-400 میزائل سسٹم کی خرید کے لئے سمجھوتہ   کیا ہے تو   دوسری طرف نیٹو ممالک  سے بھی ائیر ڈیفنس سسٹموں کی خرید کے لئے مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ علاوہ ازیں تیسرے ائیر ڈیفنس سسٹم  کے طور پر ترکی نے فرانس اور اٹلی کے ساتھ مشترکہ پیداوار کے لئے ابتدائی سمجھوتے پر دستخط  کئے ہیں۔ ترکی F-35  جنگی طیاروں کی تیاری  میں بھی فعال کردار  ادا کرنے والے ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم دہشت  گرد تنظیموں فیتو اور PKK/YPG کے معاملے میں ترکی کی اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ کشیدگی جاری ہے۔ اسی طرح کریمیا ، یوکرین اور غتّہ کے موضوعات میں  روس کے ساتھ  مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود ترکی ایک متوازن خارجہ پالیسی  پر عمل پیرا ہو کر اپنے قومی مفادات  میں  زیادہ سے زیادہ  اضافہ کرنے  کی کوشش میں ہے۔



متعللقہ خبریں