ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 12

روس اور برطانیہ کے درمیان روسی ایجنٹ کو زہریلی گیس سے ہلاک کیے جانے پیدا ہونے والے بحران پر جائزہ

935940
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ  12

ریشیا  فیڈریشن میں کروڑوں کی تعداد میں رائے دہندگان نے صدارتی انتخابات میں حصہ  لیا۔  دوسری جانب برطانیہ نے   لندن میں    زہریلی  گیس  سے ہلاک ہونے والے سرگئی اسکرپال    کے قتل کی  ذمہ داری روس پر عائد کی ہے۔

سامعین  اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے  لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا مندرجہ بالا  موضوع  پر  جائزہ ۔۔۔

روس میں رائے دہند گان نے  صدرِ مملکت کا انتخاب کر نے کے  لیے 18 مارچ کو پولنگ  میں حصہ لیا۔ اس تجزیے کو تحریر کرنے کے وقت بیلٹ بکسوں کا نصف   سے زائد  کھلا تھا اور پوتن نے اسوقت تک ووٹوں کا 75فیصد حاصل کر لیا تھا، لہذا پوتن  چوتھی  بار  صدارتی کرسی پر براجمان ہوں گے۔

دوسری جانب   ایک سابق روسی ایجنٹ سرگئی اسکرپال  اور اس کی دختر   کو زہر دیے جانے کے بعد برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئے  نے براہ راست حکومتِ روس پر نکتہ چینی ۔ اس طرح روس اور مغربی ممالک کے درمیان حالیہ برسوں میں رونما ہونے والی  کشیدگی میں  ایک نیا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ برطانیہ ، امریکہ اور جرمنی کے مشترکہ اعلان میں "دوسری جنگ عظیم کے بعد  یورپی خطے میں  پہلی بار  اعصابی گیس  استعمال کی گئی" اور کیمیائی  ہتھیاروں پر پابندی  عائد کرنے کے معاہدے کے منافی ہونے   والے اس حملے  سے برطانیہ کی حاکمیت اور آزادی کو ہدف بنانے" کی طرح کے بیانات  مغرب کے اس حملے کو کافی سنجیدہ لینے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم کے سخت گیر بیانات   کا جواب روس نے "سرکس شو" کہتے ہوئے    دیا ہے۔  بعض ماہرین کے مطابق   روس کے الفاظ"سرکس شو"  سوچ سمجھ کر استعمال کیے گئے ہیں۔  برطانوی  خفیہ  سروس  ایم آئی۔6 کا لندن میں  مرکزی دفتر کیمبرج علاقے کے سرکس اسکوائر پر واقع  ہے ، اسی وجہ سے ایم آئی ۔6 کو سرکس  کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔یعنی روسی  'سرکس شو'   پر مبنی بیانات کے ساتھ  دنیا بھر کے سامنے یہ اعلان کرنا  چاہتے ہیں کہ"یہ قتل برطانوی خفیہ سروس کی ایک چال  ہے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔"

یہ  منفی پیش رفت مغربی  ملکوں میں ماسکو  کے خلاف   مزید نئے محاذ کھڑی   کر سکتی  ہے۔ اگر ایسا ہوا تو روس پر  پابندیوں میں اضافہ ممکن ہے۔ اس  صورتحال میں  روس  کے ساتھ  عسکری اور توانائی کے شعبوں میں  باہمی تعاون  قائم کرنے والے  ترکی پر مغرب   دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔  ایس۔400 کی خرید، ٹرکش اسٹریم اور حتی ٰ اک قویو  جوہری   بجلی گھر  منصوبوں کی منسوخی کے  حوالے  سے ترکی   کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا انقرہ کو روس  سے تعلقات کی بنا پر مغربی ملکوں  کے ممکنہ دباؤ کے خلاف  تیار رہنا ہو گا۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ  جیسے کسی نئی سرد جنگ  کا بھوت   نے دوبارہ جنم لے لیا ہو۔  ایک جانب یہ پیش رفت جاری ہے تو آیا کہ     ترک۔ روسی  تعلقات کس سطح پر  ہیں؟     یہ تعلقات  ہمیشہ سے کہیں زیادہ  اچھی سطح پر استوار ہیں۔    ترکی اور روس کے درمیان  کئی ایک سٹریٹیجک  شعبہ جات میں جیو پولیٹکل  رقابت  جاری ہے تا ہم   بیک وقت  دونوں  ملکوں کے باہمی تعاون  کے  شعبوں میں بھی وسعت کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ ترکی اور روس نے  سرد جنگ کے خاتمے  کے بعد متعدد  مشترکہ منصوبوں اور امور کو سر انجام دیا ہے۔

دونوں مملکتوں کے باہمی تعلقات  تین بنیادی محوروں پر  ہم آہنگی کے  ساتھ  آگے بڑھ رہے ہیں جو کہ ٹرکش اسٹریم، ایس۔ 400 اور شاخِ زیتون   ہیں۔ خاصکر شام کے بحران کی بنا پر نیٹو کے رکن ملک ترکی  کے میزائل حملوں کے خطرات سے دو چار ہونے کے باوجود  پیٹری ایٹ فضائی دفاعی  نظام کو نیٹو نے کافی   تاخیری سے ترکی لایا تھا۔ اسپین اور اٹلی کے علاوہ کے ممالک    ان میں نصب بیٹریوں کو  موقع ملتے ہی   نکالتے  ہوئے واپس لے گئے۔ آج  PKK/ پی وائے ڈی۔ وائے پی جی کے پاس  نیٹو   کے  زیر استعمال ہونے والا ہلکا اور بھاری اسلحہ موجود ہے۔ نیٹو  کے ریکارڈز میں   شامل ہونے والے فوجی  دھماکہ خیز مواد  کو ان دہشت گردوں نے استنبول کے  گنجان آباد علاقوں میں استعمال کیا ۔  فیتو کی 15 جولائی کی  خونی ناکام  بغاوت   کے خلاف بعض مغربی ممالک نے سنجیدہ سطح کا رد عمل  نہیں  دیا۔ اس تمام تر پیش رفت             نے  ترکی کو متبادل راہوں کی  تلاش پر مجبور کیا۔

آج مغرب کی دہرے معیار پر مبنی پالیسیاں ترکی اور روس کو گہرا تعاون قائم کرنے کی جانب دھکیل  رہی ہیں۔ لہذاٰ  بین الاقوامی اور علاقائی  اعتبار  سے یہ  ٹرکش اسٹریم منصوبے کے لیے ایک موزوں سیاسی ماحول  تشکیل   دے  رہی ہیں۔ یہ منصوبہ ترکی  کے عالمی توانائی کی مانگ میں    ایک ٹرانزٹ ملک   اور انرجی سنٹر  بننے  کے اہداف کو پورا  کرنے  میں بھی بارآور ثابت ہو گا۔ روسی قدرتی گیس کی براستہ ترکی  یورپ   تک ترسیل  کو   ٹرکش اسٹریم  کے نام  سے منسوب کیا جانا  بھی ترکی ۔روس تعلقات   کو  مستقل مزاج بنائے گا۔  علاوہ ازیں  ترکی ۔ یورپی یونین تعلقات  میں بھی توانائی   کے موضوع کے اعتبار سے  ایک نئے  دور کا آغاز  ممکن  بن  سکتا ہے۔

ٹرکش اسٹریم منصوبہ  روس کے ترکی پر اعتبار  کرنے کا مرہون ِ منت ہے، یہ توانائی کی ترسیل میں  ایک نئی راہداری  کی تشکیل  اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر مثبت اثرات پیدا کرنے کے لحاظ  سے اہمیت  کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں  ترکی  کے پہلے   جوہری  بجلی  گھر   کی حیثیت  کو حاصل کرنے والے  آک کویو  پاور اسٹیشن کی   ایک روسی انرجی فرم کی جانب سے تعمیر  کا عمل بھی دو طرفہ    روابط  کو نت نئے پہلوؤں سے متعارف کرا رہا ہے۔

نتیجتا ً موجودہ حالات میں  ایک نئی سرد جنگ  کے اشارے سامنے آنے  لگے ہیں تو بلا  شبہہ  طرفین ، ترکی کو  اپنی  صف میں شامل کرنے کی دوڑ میں   لگ  جائینگے۔  ترکی کے اس مرحلے پر   قومی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حرکت کرنے کا  کہنے  کے لیے کاہن ہونے کی ضرورت نہیں۔ 15 جولائی  کے واقع کے بعد فرات ڈھال  کے ساتھ شروع ہوتے ہوئے تا حال جاری ہونے والی ترک   مسلح افواج کی کاروائیاں  کا مشاہدہ کرنا تمام تر حقائق کو واضح کر تا ہے۔

آئندہ کے سلسلے میں امریکہ،  ترکی  سمیت  روس کے قریبی   اتحادیوں پر اپنا دباؤ بڑھا سکتا ہے۔  اس مرحلے پر  منبج اور دریائے فرات کے مشرقی  علاقوں میں  دہشت گرد تنظیم PKK/ وائے پی جی کا وجود ایک اہم مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ترکی کے شک و شبہات کو پور ی طرح دور نہ کیا  گیا تو ترکی، امریکہ کے ساتھ حالات کو  معمول پر لانے کی  کوششوں  سے باز آسکتا  ہے، دراصل  روس ایک طویل  عرصے  سے اسی چیز کا منتظر تھا۔

تحریر: ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک



متعللقہ خبریں