ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ03

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ03

888880
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ03

عراق میں سن  2018  میں انتخابات ہو رہے ہیں  لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے لیکر ابتک ہونے والے انتخابات  کے بعد ملک کو  سخت بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔  اگرچہ صورتحال کا اس نظریے کا سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لینا  درست نہیں ہے  لیکن داعش کو نظر انداز کرنے سے  عراق کے مسائل    پوری طرح حل نہیں ہو سکے ہیں  یہی وجہ ہے کہ  2018 میں بھی عراق کی صورتحال کا قریبی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ 

عراق میں انتخابات اور استحکام

امریکہ کی طرف سے 2003 میں حق بجانب جواز کے بغیر عراق پر قبضہ کرنے کے بعد سرکاری اداروں اور انتظامیہ  کی ابھی تک تشکیل نو نہیں ہو سکی ہے ۔ باقاعدگی کیساتھ  بر   وقت انتخابات کے انعقاد کے باوجود  امریکی قبضہ سیاست کو نسلی اور فرقہ وارانہ خطوط پر  نئے سرے سے شکل دینے اور سیاسی اداروں   کا مسائل کے  حل کی تلاش  سے زیادہ  موجودہ مسائل کو اچھالنے کا سبب بنا ہے ۔ ان وجوہات کی بنا پر  امریکی قبضے کے بعد   ہر   انتخاب کے بعد منفرد نوعیت کے بحران سامنے آئے ہیں ۔

 

2005 کے انتخابات کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔  2010 کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں  سنیّ شعیہ قطب پذیری  بڑھی  اور اُس وقت کے وزیر اعظم نوری مالکی  کی  سنیّ عربوں  کو الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی معاشرتی بے چینی کا سبب بنی ۔ 2014 کے انتخابات کے کچھ مدت بعد  دہشت گرد تنظیم داعش کی پر تشدد کاروائیوں سے ملک تباہ و برباد ہوا ۔

اندازے کے مطابق 2018 میں ہونے والے انتخابات کے بعد بھی صورتحال میں  واضح تبدیلی نہیں آئے گی لیکن منظر زیادہ مایوس کن بھی نہیں ہے کیونکہ پہلی نظر میں عراق سے داعش کا وجود  ختم ہو تا نظر آتا ہے ۔

 شمالی عراق میں خود مختاری کے لیے ریفرنڈم کے بعد وزیر اعظم حیدر العبادی نے علاقائی قوتوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے  جو قدم اٹھائے ہیں ان سے  عربل انتظامیہ کے مقابلے میں   حکومت عراق  کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو گئی ہے ۔ علاوہ ازیں ، ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کے باوجود حکومتِ عراق  پٹرول کی پیداوار کو بڑھانے اور جنگی اخراجات کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے  میں  کامیاب  رہی ہے  ۔ صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ  2014 میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنھبالتے وقت انتشار کے شکار ملک عراق کی باگ ڈور سنھبالنے والے وزیر اعظم العبادی نے  چار سالہ دور اقتدار  میں اہم کامیابیوں پر مہر ثبت کی ہے ۔

اس  خوش کن منظر کا ایک  دوسرا رخ بھی  ہے ۔  حکومت بغداد  کو  دہشت گردی اور علیحدگی پسند عناصر کے خلاف جدوجہد میں  سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

حکومت عراق کے سیاست میں  اثرو رسوخ  کے بڑھ جانے  سے متعلق انسان کے ذہن میں یہ  سوال  پیدا ہوتاہے کہ  کیا  حکومت مضبوط ہوئی ہے یا   پھر یہ حکومت پر اثر رکھنے والے  حکومت کے اندر ایک حکومت   جیسا  موقف  اپنانے والے با رسوخ  گروپوں کے   ا تحاد  کا نتیجہ ہے ۔

 مجوزہ انتخابات سے قبل سیاسی توازن

  عراقی پارلیمنٹ نے 12 مئی 2018 کو انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے ۔  ماضی میں  عام طور پر انتخابات مقررہ تاریخ  سے کم از کم چھ ماہ تاخیر سے ہوئے ہیں   لیکن تاریخ کا پہلے  سے  واضح طور پر اعلان  کرنے کے بعد انتخابات کبھی ملتوی نہیں ہو ئے ہیں ۔ انتخابات اور سیاست  پر اثر انداز ہونے والے نازک توازن   سے متعلق بعض لاجواب  سوالات ابھی تک  موجود ہیں ۔

 پہلا سوال یہ ہے کہ  عراق کا   داعش سے نجات کے بعد  علیحدگی پسند  عناصر کے مطالبات  سے بچنے اور عراقی شعیہ عربوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جانے والے گروپ حشدی شابی کے نئے سیاسی دور میں کردار کیا ہو گا ۔   آیت اللہ علی سستانی کی مسلح گروپوں کو ہتھیار  ڈالنے کی اپیلوں کے بعد متعدد گروپوں نے اسلحہ استعمال نہ کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کو ترجیح دی ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کچھ مدت سے حشدی شابی وزارت دفاع   کے زیر سایہ ہے یعنی  اس نے ایک آئینی ادارے کی شکل اختیار کر لی ہے   اور اس تنظیم کے اراکین سرکاری  محافظ  کی حیثیت رکھتے ہیں ۔   اس نقطہ نظر سے  ادارے کا وجود بدل سکتا ہے لیکن وابستگی آسانی سے نہیں بدل سکتی ۔

 دوسرا سوال  یہ ہے کہ  سنیّ عربوں کو کس طرح دوبارہ سسٹم  سے ہم آہنگ  کیا جائے گا ؟ امریکہ کی طرف سے عراق میں باس پارٹی کو اقتدار سے دور کرنے کے بعدحل نہ کیے جا سکنے والے اس مسئلے نے اب  پیچیدہ ترین صورتحال اختیار کر لی ہے ۔ اگر چہ باس پارٹی کے  سابق اراکین  اور بعض قبیلوں  نے داعش کے خلاف جدوجہد میں  اہم کردار ادا کیا ہے  لیکن حالیہ تین برسوں میں سنیّ  عربوں کاصحیح معنوں میں  کچلا گیا ہے ۔  بعض اراکین کو داعش نے اپنا نشانہ بنایا اور بعض کو حکومت ابھی تک دہشت گرد قرار دے رہی ہے ۔ بعض اراکین نے ملک  کو ترک کر دیا ہے کیونکہ وہ عوام  کے سامن ےآنے کی جرات نہیں رکھتے ۔ باس پارٹی کے بعض اراکین نے حکومت کیساتھ اتحاد کیا ہے اور یہ گروپ اسوقت طاقتور ترین  گروپ بن گیا ہے  لیکن حقیقت یہ ہے کہ  سنیّ عربوں کے نمائندے نہ قبیلوں کے اندر اور نہ ہی حکومت کی  سطح پر   پہلی جیسی طاقت کے مالک ہیں ۔

شمالی عراق کی علاقائی انتظامیہ کیساتھ تعلقات

 عراقی کردوں کے مستقبل  کو بھی  سوچنے کی ضرورت ہے ۔ شمالی عراق کی علاقائی انتظامیہ

میں اس سال انتخابات نہیں ہو رہے  ہیں ۔ عراق میں ہونے والے صدارتی انتخابات   میں مقابلہ سخت ہو گا ۔ یہ انتخابات کردوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں  لیکن 16 اکتوبر کے بعد بغداد میں پیش آنے والے واقعات سے    شمالی عراق کی علاقائی انتظامیہ سخت متاثر ہوئی ہے ۔وہ   2003 سے لیکر 2010 کے درمیانی عرصےبغداد  کے واقعات  پر اثر انداز ہونے     کی           صلاحیت خاصکر 2014 کے بعد کھو بیٹھی ہے ۔  پارلیمنٹ میں کردی پارلیمانی نمائندوں کی تعداد  کے  زیادہ ہونے کے باوجود  ان کے لیے نئی حکومت   میں  فرائض لینا انتہائی مشکل   ہو گا ۔

  یہ حقیقت ہے کہ نئے توازن کے نتیجے میں  شمالی عراق کی علاقائی انتظامیہ  کو  حکومت کے اندر دوبارہ طاقتور ہونے کی ضرور ت ہے بصورت دیگر فیڈرل علاقے میں اقتصادی مسائل  سنگین شکل اختیار کر لیں گے ۔

عراق کے سیاسی محور میں ہر پانچ سال بعد تبدیلی آنے لگی ہے ۔ حالیہ دور میں طاقتور بننے کی کوشش میں  بدلنے والی مرکزی اتھارٹی  کو  بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا  ۔ جس کی وجہ سے عراق کے بارے میں  امید  کی کرنیں زیادہ روشن نظر نہیں آتی ہیں ۔



متعللقہ خبریں