ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 02
سن 2017 میں ترک خارجہ پالیسی کی کاردگی: ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کے قلم سے
![ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 02](http://cdn.trt.net.tr/images/xlarge/rectangle/8138/69da/ead9/59cbedfeb1d92.jpg?time=1718851637)
جمہوریہ ترکی نے سن 2017 میں نت نئے اقدامات کا تعین کیا اور اس ضمن میں سنجیدہ سطح کے اقدامات اٹھائے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا جاِئزہ:
ترک خارجہ پالیسی کی 2017 میں کارکردگی کا تعین کرنے والے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں: عالمی و علاقائی پلیٹ فارم پر غیر متوقع پیش رفت، داخلی پالیسیوں میں تعمیری ردو بدل ، دہشت گردی کے خلاف جدوجہد، نئی جستجو اور رحجان۔ ترک ڈپلومیسی نے سن 2017 کے پہلے دن سے لیکر آخری دن تک پلے میکر حربوں کے ذریعے غیر متوقع اور اچانک رجحان کو عملی جامہ پہنایا۔ نہ صرف علاقائی پلیٹ فارم پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اس نے اپنے وجود کو منوایا۔ ترک پالیسیوں نے گزشتہ برس معلوم خطوط سے ہٹ کر بھی بعض اقدامات کو فروغ دیا۔ اس مؤقف کی بدولت نئی دوستیاں اور حصہ داریاں بھی بنیں۔ علاوہ ازیں موجودہ دوست اور اتحادیوں میں سے بعض سے متعلق ذہنوں میں سوالیہ نشانات بھی جنم لیا۔
سن 2017 میں ترک ڈپلومیسی کا سب سے توجہ طلب علاقہ مشرق وسطی تھا۔ خاصکر شام سے متعلق پیش رفت، ترک خارجہ پالیسی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ شام ،دہشت گرد تنظیم PKK کی شاخ پی وائے ڈی/وائے پی جی کے بنیادی ہدف کی ماہیت اختیار کر گیا ہے۔ ترکی نے دہشت گردی کو اس کی جڑوں سے کاٹنے کا مقصد ہونے والے نئے سیکورٹی نقطہ نظر کے مطابق شمالی شام میں اپنی عسکری سرگرمیوں میں تیزی لائی۔ اس ضمن میں روس اور ایران کے ہمراہ شامی بحران کو حل کرنے کے لیے ترکی نے فعال کوششیں سر انجام دیں۔ شام بحران کے حوالے سے ترکی نے روس اور ایران کے ساتھ مل کرسلسلہ آستانہ کا آغاز کیا۔ ترکی نے عراق پالیسیوں میں بھی گزشتہ برس اہم سطح کی تبدیلیاں کیں۔ بالخصوص مسعود برزانی کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کے منافی ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ اس حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ ریفرنڈم کے فیصلے کے بعد ترکی نے عراقی مرکزی حکومت اور ایران کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور خطے میں توازن کے پلڑے کو اپنی جانب موڑ لیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس سے متعلق خطرناک فیصلے کے بعد ترکی نے ایک نیا ڈپلومیسی حربہ شروع کیا اور مسلم اُمہ کے ہمراہ اہم سفارتی اقدامات اٹھائے ، اس نے یہ معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک پہنچایا۔ یہ موضوع ترکی کی جانب سے اکثر وبیشتر زیر لب لائے گئے "دنیا پانچ طاقتوں سے بڑی ہے" نظریے کی توثیق کے حوالے سے ایک عالمی امتحان ثابت ہوا۔ علاوہ ازیں ترکی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر سنجیدہ سطح کے رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کی توجہ کو اس معاملے کی جانب مرکوز کرانے کی کوششیں کیں۔
ترک ڈپلومیسی کے لیے سال 2017 اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں سب سے زیادہ مسائل اور تناؤ کے ادوار میں سے ایک ثابت ہوا۔ امریکہ، یورپی یونین، نیٹو اور جرمنی سمیت متعدد یورپی ملکوں کے ساتھ مختلف معاملات میں تنازعات پیش آئے ۔ امریکہ کے ساتھ شام بحران، دہشت گرد تنظیم PKK کے شام میں بازو پی وائے ڈی کے ساتھ اس کے تعاون اور فیتو کے سرغنہ کی ترکی کو حوالگی سمیت یورپی ملکوں کے ساتھ بھی فیتو اور دہشت گرد تنظیم PKK کے خلاف جدوجہد کے معاملے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ مغربی اتحادیوں کی جانب سے ترکی کی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ میں لازمی حمایت و تعاون فراہم نہ کرنا باہمی تعلقات میں تناؤ آنے والے مسائل میں سر فہرست رہا۔ ترکی نے اس معاملے میں پیچھے قدم نہ ہٹایا اور حقوق کا پوری طرح دفاع کیا۔ اس نے اس معاملے میں سخت گیر مؤقف اور چلینج کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہ لیا۔ جس سے مغرب کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں بگاڑ آگیا۔ دوسری جانب ترکی اور روس کے درمیان عسکری شعبے سمیت ہر شعبے میں تعاون و قربت کا مشاہدہ ہوا۔ ترکی نے نئی پالیسیوں اور اقدامات کو سرعت دی ۔ اس ضمن میں صومالیہ اور سوڈان کے ساتھ فوجی معاہدے طے پائے۔ ایک جانب سے ایشیائی اور افریقی ممالک کے ساتھ نئے اور وسیع پیمانے کے تعلقات کے قیام کی کوششیں صرف کی گئیں تو دوسری جانب موجودہ روابط کو تقویت دیے جانے کے معاملے میں جدوجہد کو جاری رکھا گیا۔
ترکی نے ایک طرف عالمی میدان میں پالیسیوں کا تعین کرتے وقت دوسری طرف ڈھانچے مسائل کے حل کی تلاش بھی جاری رکھی، اس حوالے سے داخلی پالیسیوں میں ایک اہم تبدیلی کی ۔ ترکی میں صدارتی نظام کو اپنا لیا گیا۔ اس طرح ترکی نے 2023 کے اہداف کے حصول کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ کو دُور کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد داخلی و خارجی پالیسیوں کا مرکزی ایجنڈہ رہا۔ کیونکہ ترکی نے 2017 بھر کے دوران فیتو، دہشت گرد تنظیم PKK اور داعش کے خلاف جنگ کو اندرون و بیرون ملک بھی جاری رکھا۔
دہشت گردی کے واقعات اور 15 جولائی کی بغاوت کی ناکام کوشش کے نتیجے میں سن 2016 میں اپنی استعداد سے کم سطح پر ترقی کرنے والی ترک معیشت خطرات میں گراوٹ آنے کے ساتھ سال 2017 میں بلند ی کی جانب مائل ہوئی۔ گزشتہ برس کی تیسری سہہ ماہی میں 11٫1 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ جی۔20 ملکوں میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کے درمیان جگہ پائی۔
توانائی کے شعبے میں بھی سال 2017 میں اہم پیش رفت سامنے آئی۔ ترکی میں مقامی توانائی کے استعمال کے حوالے سے اہم امور پر کام جاری ہے۔ یہ توا نائی کے شعبے میں بیرون ملک پر انحصار میں کمی لانے کے زیر مقصد نکلیئر انرجی اور قابلِ تجدید توانائی تک کے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کو مصمم طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
خاصکر سال 2017 ترک خارجہ پالیسیوں کے لیے نئے رجحان اور اقدامات کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے۔