ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 01

صدر رجب طیب ایردوان کے افریقی ملکوں کے دوروں اور ترک عمومی خارجہ پالیسی پر اس کے اثرات پر ایک جائزہ

882595
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 01

جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  نے 2017  کے آخری ایام میں براعظم  افریقہ  کا   تین روزہ دورہ کیا۔ اس نئے  سلسلہ وار  پروگرام میں  اس ہفتے   صدر  ایردوان  کے دوروں اور ترک خارجہ پالیسیوں کے اثرات  کا جائزہ ہمارے قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ برس   24تا 27 دسمبر  کو جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  نے سوڈان، چاڈ اور تیونس کا سرکاری دورہ کیا۔ ان دوروں کا مقصد ترکی کے  افریقہ  میں رجحان کو مزید  گہرائی دینا  اور  مذکورہ تینوں ملکوں کے ساتھ  اقتصادی و دفاعی   شعبوں سمیت ہر شعبے میں  باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینا تھا۔ جناب ایردوان  اولین طور پر سوڈان  گئے جو کہ افریقہ کے درخشاں  مستقبل  میں پیش پیش  ایک ملک ہے۔  یہ ملک 20 برسوں سے اقتصادی و سیاسی پابندیوں کے  ما تحت اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کی جستجو میں ہے۔ آج کل  ان  پابندیوں کو ہٹائے جانے کے فیصلے کے بعد  بڑی فرمیں  دوبارہ اس ملک کی جانب   مائل ہوئی ہیں۔

صدر ترکی کے تقریباً 200 آجروں کی ہمراہی میں  اس دورے نے  سوڈان میں امیدوں  کی فضا کو بیدار کیا ہے۔  دورے میں دونوں ملکوں کے   متعلقہ وزراء  نے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی کئی ایک شعبہ جات پر محیط 13 معاہدوں  پر  دستخط کیے۔ سوڈانی عوام نے ترکی سے محبت اور ایردوان سے  اُنسیت  کا ترک پرچمو  ں کے ساتھ گلی کوچوں میں نکلتے ہوئے بھر پور طریقے سے مظاہرہ کیا۔

ترک صدر نے سوڈان میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں افریقہ کے اہم ترین ساحلی شہروں میں سے جزیرہ سیواکن کا بھی دورہ کیا۔ جہاں پر انہوں نے  ترک رابطہ و ترقیاتی  ایجنسی تیکا کی جانب سے  جاری پرانی عمارتوں کی مرمت  کے امور کا جائزہ  لیا۔  جناب ایردوان نے  سوڈانی صدر عمر الا بشیر سے اس جزیرے کی از سر نو نشاط کے  لیے  اسے کچھ مدت کے لیے  ترکی  کے لیے تخصیص کرنے کی درخواست کی۔ جسے   سوڈانی صدر نے قبول کر لیا۔  اس جزیرے کو  49 یا پھر  99 برسوں کے لیے  ترکی کو الاٹ کرنے کا معاملہ  زیر بحث   آیا ہے۔

سیواکن، مصر  اور شام   پر  حاکمیت  قائم  ہونے والی دولتِ  عثمانیہ  کی  بحرِ احمر    کے ساحلوں پر واقع  ایک اہم تجارتی  بندر گاہ  کی حیثیت کا مالک تھا۔۔ 15  ویں کے اختتام  سے سمندروں میں  اپنی واضح  بالادستی قائم کرنے والے  پرتگال نے مشرقی افریقی ساحلوں پر واقع  متعدد مسلمان ریاستوں کو  حملے کر کے  نیست و نابود کرتے ہوئے  خطے میں اپنی حاکمیت قائم کر لی۔ سن 1513 میں سیواکن پرتگالیوں کے ہاتھ لگ گیا۔ یاوز سلطان سلیم کے دور میں  شام اور مصر  کو اپنے زیر ِ کنٹرول لینے والے   سلطنتِ عثمانیہ نے  بحرِ احمر میں  اپنی   حاکمیت   قائم کر لی اور مشرقی افریقہ کے بہت  سارے علاقوں کو  پرتگال  کے قبضے سے نجات دلا دی۔

ترکی اولین طور پر  تیکا کی مدد سے سیواکن  میں تاریخی  نوادرات کو منظر عام پر لائے گا،  علاقائی تجارت و سیاحت  کو  جانبر کرے گا۔  ترکی  اس صورتحال کو سوڈان کے ساتھ  فروغ  دیے گئے تعاون کی بدولت بحر ِاحمر  اور گرد و نواح کے علاقے کی سلامتی  و تحفظ کے لیے   بروئے کار لاسکے گا۔ اس طرح ترکی مستقبل قریب میں  صومالیہ اور یمن میں  قیام امن میں خدمات فراہم کر سکے گا۔

صدر ترکی نے سوڈان  کے بعد آجروں کے ایک بڑے گروہ  کے ہمراہ چاڈ کے دارالحکومت  انجامینا  کا دورہ کیا ۔ ترکی اور چاڈ کے  تعلقات کا ماضی  16 ویں  صدی سے تعلق رکھتا ہے۔ حالیہ   ایام میں ترکی اور چاڈ کے  باہمی تعلقات  میں اہم سطح کی پیش  رفت حاصل ہوئی ہے۔ چاڈ کے  سابق وزیر اعظم کالزوبے  پاییمی  ڈیوبیٹ  نے 15 تا 18 دسمبر 2014 کو ترکی کا  سرکاری  دورہ کیا تھا۔  جس دوران  مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔  دورہ چاڈ میں مسلح  افواج کے  سربراہ  جنرل خلوصی آکار بھی ترک وفد میں  شامل تھے۔ حالیہ برسوں میں  خطے میں انسداد دہشت گردی کے معاملے میں اہم کردار ادا کرنے والے  چاڈ کا یہ دورہ ایک اہم مفہوم  کا حامل   ہے۔  اس دوران منعقدہ  بزنس  فورم  سمیت کئی ایک شعبوں میں طے پانے والے  باہمی تعاون معاہدوں  سے تعلقات میں ایک نیا اسراع پیدا ہو گا۔

ترکی۔ تیونس دو طرفہ تعلقات  قدیم تاریخی و ثقافتی روابط  کی بنیادوں پر  استوار ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدگی  سے اعلی  سطحی دوروں کا سلسلہ جاری ہے، ہر شعبے میں  صلاح مشور ہ اور   رابطے  سر انجام پاتے ہیں۔ تیونس  میں  3 صدیوں سے جاری سلطنتِ عثمانیہ کے اثرات  تیونسی عوام  میں ترکی سے قربت  کا منبع ہیں۔

اس دور  کے   حکومتی  سربراہ حامادی جیبالی نے 24 تا 25 دسمبر 2012 کو  ترکی  کا سرکاری دورہ کیا تھا  جس دوران  اعلی سطحی  حکمت ِ عملی تعاون کونسل  کے قیام پر مبنی  مشترکہ سیاسی  اعلامیہ پر دستخط کیے گئے۔  صدر  ایردوان کے 5 تا 6 جون سن 2013 کو  دورہ تیونس میں  تعاون کونسل   کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔  اس دوران مختلف شعبوں میں 21  معاہدوں اور ایکشن پلانز سمیت  24  سسٹر شہروں   کے پروٹوکولز پر دستخط کیے گئے۔ سال 2017 کے آخری ایام میں اس ملک کے دورے کی بدولت دو طرفہ تعلقات  کی بنیادیں مزید مضبوطی حاصل کر گئی ہیں۔

آج سے دس برس قبل ترکی  کی افریقہ سیاسی پالیسیوں  پر ذہنوں میں مختلف شک و شبہات موجود تھے۔ تا ہم  آج ان  شکوک  کے ختم ہونے  کا مشاہدہ  ہوتا ہے۔ ترکی   اب افریقہ میں   سنجیدہ سطح پر اپنے وجود کو قائم   کر چکا ہے،  خطے میں  اس  کا  وجود سیاسی ، ثقافتی، سٹریٹیجک، فوجی اور اقتصادی  اعتبار سے  انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ افریقہ  میں  ترکی میں لی گئی دلچسپی کی سطح  نہ تو کسی مغربی  ملک کو  حاصل ہے اور نہ  ہی کسی مسلمان ملک کو۔ صدر ایردوان کے خطے کے ممالک کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں  زیر لب لائے گئے"افریقہ کے لیے افریقی حل " فلسفے کو  کافی حد تک پذیرائی مل رہی ہے۔

مذکورہ تین افریقی ملکوں کے دوروں کے ساتھ صدرِ ترکی کے   بر اعظم افریقہ میں  دورے کردہ ممالک کی تعداد 28  ہو گئی ہے۔ اس دائرہ کار میں افریقہ کے 32 ملکوں کے 51 شہروں  کے ساتھ پروازیں چلانے والی ترک ہوائی فرم ، 6 سے زائد ملکوں میں اپنی سرگرمیوں کو  جاری رہنے والی ترکی معارف انجمن،  متعدد ملکوں میں نمائندہ دفاترموجود ہونے والاتیکا اور ترک شہری تنظیمیں    اہم کردار ادا کر رہی  ہیں۔  عصر حاضر میں  بین الاقوامی تعلقات   کے دائرہ کار میں  ملکوں کے مابین  تعلقات  انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس  ضمن میں حکمت عملی، سیاسی، ثقافتی و اقتصادی استعداد  ترکی کو بر اعظم افریقہ میں اہم مواقع فراہم کر رہی ہے۔   صدر رجب طیب ایردوان ان عوامل کو عملی جامہ پہنانے میں سر گرم عمل  دکھائی دیتے ہیں اور ان کے  افریقی ملکوں کے دورے کافی کامیاب  گزر رہے ہیں۔



متعللقہ خبریں