ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔51

874525
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ

 

 امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ امریکہ کے اس فیصلے کے بعد  ترکی کی اپیل پر القدس کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی  کا   سربراہی اجلاس منعقد ہوا ۔آج کے   اس پروگرام میں اس سربراہی اجلاس  اور  مشرق وسطیٰ کے علاقے   پر اثرات  کے  موضوع پر اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ  آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کیطرف سے القدس کو اسرائیل کےدارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے فیصلے پر دستخط کرنے  کے بعد  اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ صدر ترکی کی اپیل پر استنبول میں اہم  سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری اختتامی اعلامئیے میں مقبوضہ مشرقی  القدس کے فلسطین کا دارالحکومت  ہونے پر زور دیا گیا ۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی   نے قیام کے بعد پہلی بار  انتہائی اہم فیصلے پر دستخط کرتے ہوئے فلسطین کی بھرپور اور ٹھوس حمایت کا  اظہار کیا ہے ۔  فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس  اجلاس کو انتہائی کامیاب اجلاس قرار دیا ہے ۔

استنبول سربراہی اجلاس  کے انعقاد اور اختتامی اعلامئیے  سے القدس کے معاملے میں اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا گیا ہے ۔  یہاں پر  اس بات کی وضاحت کرنی ضروری ہے کہ اگر صدر رجب طیب ایردوان  سفارتی سطح پر  بھر پور کوششیں صرف نہ کرتے  تو اسلامی تعاون تنظیم  کے دائرہ کار میں ایسی یکسانیت کا مظاہرہ ممکن نہ ہو سکتا ۔  صدر ایردوان  القدس کے مسئلے کو صرف مسلمانوں کے مسئلے کی نظر سے نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں  اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کی رو سے سیاسی موقف کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

اسلامی تعاون تنظیم  کے استنبول سربراہی اجلاس کے بعد جاری اعلامئیے میں اسطرف توجہ دلائی گئی ہے کہ امریکہ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اصولوں کی کھلے عام پامالی ہے ۔ لہذا امریکہ اپنے اس فیصلے کو فوری طور پر  واپس لے ۔ دیگر ممالک سے بھی امریکہ جیسے فیصلے سے گریز کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔ اعلامئیے میں مشرقی  القدس کے فلسطین کا دارالحکومت ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ۔مشرقی القدس  کی اصطلاح استعمال کرنا اس بات کا مظہر ہے کہ اسلامی ممالک دو مملکتی حل کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں ۔ تمام ممالک سے  مشرقی القدس کو   فلسطین کے مقبوضہ دارالحکومت  کے طور پر تسلیم کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں، اقوام متحدہ  کی سلامتی کونسل سے بھی فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو فوری طور پر پورا کرنے ، القدس کی قانونی حیثیت کی توثیق کرنے ، فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو ختم کروانے  ،فلسطینی عوام کو عالمی تحفظ میں لینے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق  تمام فیصلوں پر عمل درآمد کروانے  کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

اسلامی تعاون تنظیم   کے اعلامئیے کا مشاہدہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کے دو مملکتی ماڈل کے حل کے معاملے میں عالمی سطح پر مفاہمت موجود ہے ۔ ان حالات کی موجودگی میں امریکی صدر ٹرمپ  اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتان یاہو مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں ۔

 اسلامی تعاون تنظیم  نے استنبول سربراہی اجلاس میں جو فیصلے  کیے ہیں وہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان فیصلوں پر کاربند رہنا اور ان پر عمل درآمد کروانا علاقائی امن کے لیے حیاتی اہمیت کا حامل ہے ۔  اگر مسلمان ممالک  مذہبی اور نسلی بنیاد پر جنگ و جدل سے گریز کرتے ہوئے  آپس میں متحد ہو جائیں تو  علاقے میں  با سانی امن قائم ہو سکتا ہے ۔

اسلامی تعاون تنظیم  نے تاریخ میں  پہلی با رفلسطینی عوام کا بھر پور ساتھ دیا ہے ۔  استنبول سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامئیے سے مسئلہ فلسطین کو نیا رخ دیا گیا ہے ۔ استنبول اجلاس  سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ  اسلامی ممالک  باہمی اختلافات اور  جھڑپوں  کے باوجود سفارتی سطح پر یکجا ہو  سکتے ہیں ۔

میرے نزدیک استنبول اجلاس  میں جو اہم ترین فیصلہ کیا گیا ہے وہ مشرقی القدس کو فلسطین کےدارالحکومت کے طور پر تسلیم  کرنا ہے ۔  پورا عالم اسلام اس فیصلے کی حمایت کرتا ہے اور اجلاس میں  عالمی برادری  سے بھی اس فیصلے کو تسلیم کرنے  کی اپیل کی گئی ہے ۔دوسرے اہم فیصلے کا تعلق امریکہ کو  فلسطین اور اسرائیل کے تنازع کے حل کے لیے  ثالثی کی خدمات  سے لا تعلق کرنے اور امن کے قیام کےلیے ایک نئے میکا نزم کو تیار کرنے  سے ہے ۔

استنبول سربراہی اجلاس اور اختتامی اعلامئیہ عالم اسلام اور عالمی نظام  میں منطق کیساتھ ٹھوس تبدیلیاں ہو سکنے کا اشارہ دیتا ہے ۔  بلاشبہ قلیل مدت میں بڑی تبدیلیاں لانا ممکن نہیں ۔ مستقبل کے عمل میں سنجیدہ خطرات ،کشیدگی اور جھڑپوں کے احتمال کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی ممالک نےاستنبول اجلاس میں  ترکی کی قیادت میں  اتحادو یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ لیکن وقت ہی یہ ثابت کرئےگا کہ اس موقف کو کس شکل میں  حقیقت کا روپ دیا جائے گا ۔  استنبول اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے  کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔



متعللقہ خبریں