ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 38

ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 38

870111
ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 38

پروگرام " ترکی یوریشیا ایجنڈہ"  کے ساتھ  آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ صدر رجب طیب ایردوان نے کچھ روز قبل قزاقستان کا مختصر سرکاری دورہ کیا۔ ہم بھی اپنے آج کے پروگرام میں اس دورے  اور قزاقستان ۔ ترکی تعلقات پر بات کریں گے۔

اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل دوعاچ اپیک کا موضوع سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

 

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسلامی تعاون تنظیم  کے پہلے سائنس و ٹیکنالوجی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے  8 ستمبر کو قزاقستان کا دورہ کیا۔ اجلاس سے قبل انہوں نے قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف کے ساتھ ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے مذاکرات میں فیتو، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد ، اقتصادیات کے شعبے میں تعاون اور سرمایہ کاریوں میں اضافے   جیسے موضوعات پر بات چیت کی۔

ترکی اور قزاقستان کے درمیان اعلیٰ سطحی دو طرفہ تعلقات پائے جاتے ہیں۔ جمہوریہ ترکی  قزاقستان کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے۔  اعلیٰ سطحی باہمی سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ دونوں ملک یوریشیا میں اہم ترین سیاسی و  اقتصادی ساجھے داروں کی بھی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلق کا تعین  سال 2009 میں نذر بائیوف  کے دورہ ترکی کے دوران طے پانے والے اسٹریٹجک شراکت داری سمجھوتے سے ہوا ۔ اس سمجھوتے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بھائی چارے کے ساتھ ساتھ "اسٹریٹجک شراکت داری " کی سطح پر پہنچ گئے۔  خاص طور پر حالیہ دنوں میں قزاقستان ۔ترکی تعلقات میں ایک اہم سطح کی تیزی  کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔  اس تیزی میں قزاقستان کے خارجہ پالیسی میں فعال ہونے  اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی عبوری رکنیت  حاصل کرنے جیسے فرائض کا اہم کردار ہے۔

ترک کونسل کے جس کا مرکزی دفتر استنبول میں ہے، ترکی زبان بولنے والے ممالک کی پارلیمنٹیرین اسمبلی کہ جس کا مرکزی دفتر آذربائیجان میں ہے، بین الاقوامی ترک اکیڈمی کہ جس کا مرکزی دفتر قزاقستان میں ہے اور ترک سوئے کہ جس کا مرکزی دفتر ترکی میں ہے ایسی بین الاقوامی تنظیمیں ہیں کہ جو اپنے رکن ممالک کے درمیان ثقافتی و سیاسی شعبوں میں تعلقات  کو اداراتی دائرہ کار میں مضبوط بنا رہی  ہیں۔ قزاقستان اور ترکی کے باہمی تعلقات اقتصادی قد و کاٹھ کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی کاروائیوں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔

قزاقستان اور ترکی کے درمیان فوجی تعلقات اور دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں مضبوط تعاون پایا جاتا ہے۔ ترکی،  مسلح فورسز کے افسران کی تربیت کے معاملے میں قزاقستان کو بڑے پیمانے کی مدد فراہم کر رہا ہے۔ دفاعی صنعت میں ترکی کی سر فہرست فرمیں قزاقستان کی دفاعی صنعت کی تشکیل  و ترقی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ چند سال قبل "قزاقستان۔ آسیلسان" فیکٹری کا افتتاح بھی فوجی شعبے میں اٹھایا گیا ایک اہم قدم ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان چند ملین ڈالر سے شروع ہونے والے تجارتی تعلقات کا حجم آج 4 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور دونوں ملک اس حجم کو 1 بلین ڈالر تک پہنچانےکا ہدف رکھتے ہیں۔ اس ہدف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ قزاستان اور ترکی کے درمیان لاجسٹک کے حوالے سے بلاواسطہ رابطہ لائن  کی عدم موجودگی ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے پلان کردہ متبادل  راستوں اور   سوچوں کے عملی شکل اختیار کرنے کی صورت میں تجارتی تعلقات میں  مزید فروغ آئے گا۔ اپنے دورہ قزاقستان  کے دوران جاری کردہ بیانات میں صدر رجب طیب ایردوان نے  مختصر مدت میں تجارتی حجم کے 5 بلین ڈالر  تک پہنچائے جانے کا ہدف پیش کیا۔ اس دائرہ کار میں اقتصادی تعلقات میں بھی ا ور سیاسی تعلقات میں بھی   مزید فروغ کے لئے  متعدد سمجھوتوں پر دستخط کئے گئے۔8 ستمبر  کو ہونے والے مذاکرات میں قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف نے رسل و رسائل کے سیکٹر  کی اہمیت  اور ترقی کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ " ہمارے ملک آج بھی مشرق اور مغرب کے درمیان پُل کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت  اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترکی ایک ترقی یافتہ انفراسٹرکچر والے ایک بڑے ٹرانزٹ ملک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے ترکی کو  قزاقستان کے رسل و رسائل کی صلاحیت کو مل کر فروغ دینے کی دعوت دی ہے"۔

ترکی مشرق کے انتہائی مغرب اور مغرب کے انتہائی مشرق میں واقع ہے ۔ نتیجتاً ایشیاء اور یورپ میں براہ راست کھلنے والے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ قزاقستان یوریشیاء اقتصادی یونین کا رکن اور روس اور چین جیسے مضبوط ممالک  کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھتا  ہے۔ قزاقستان ترکی کو مختلف منڈیوں  تک زیادہ سہولت سے رسائی کے امکانات فراہم کر سکتا ہے۔ لہٰذا دونوں مملکوں کے درمیان رسل و رسائل کے کوریڈوروں کا کھلنا دو طرفہ تعلقات  کے فروغ کے حوالے سے بھی اور علاقائی تعاون   کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔

ترکی  اور قزاقستان دو مختلف ملک اور واحد ملت  ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو صدر ایردوان اور صدر بائیوف دونوں ملکوں اور ترک دنیا کے حوالے سے ایک بہت بڑی خوش قسمتی ہیں۔ دونوں صدور عوام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ خصوصیات دونوں رہنماوں کو ترک دینا کی ضروریات  اور توقعات  کا درست  تعین کرنے  اور ان کا موئثر حل تلاش کرنے میں  مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ترکی اور قزاقستان کے درمیان دوستی،  مشترکہ تاریخی اور ثقافتی روابط سے تقویت حاصل کرتی ہے۔ دو طرفہ مفادات اور باہمی احترام  کی بنیادوں پر ترکی۔ قزاقستان  تعلقات آنے والے دور  میں مزید مضبوط ہوں گے۔



متعللقہ خبریں