ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 44

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ

840982
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 44

 

 2017 میں ہونے والے  دہشت گرد تنظیم داعش کے وحشیانہ حملے ترکی ،مشرق وسطیٰ اور یوریشیا کے ایجنڈے کے اہم ترین موضوع  تھے۔حالیہ کچھ عرصے سے مشرق وسطیٰ  کیطرح وسطی ایشیا   کو بھی  داعش سے سخت خطرات لاحق ہونے کا موضوع زیر بحث ہے ۔     آج کے   اس پروگرام میں ہم اس موضوع  کا حقیقت سے تعلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں  اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ   آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

2016 اور 2017 کی شب سالِ نو کے موقع پر استنبول کے مشہور نائٹ کلب رائنا پر داعش نے حملہ کرتے ہوئے 39 افراد کو انتہائی بے دردی سے ہلاک کر دیا ۔ اس حملے سے عالمی برادری کی نظریں مشرق وسطیٰ اور یوریشیا کے علاقے پر مرکوز ہو گئیں ۔ اب بھی اس علاقے میں داعش کی کاروائیاں موضوع ِبحث بنی ہوئی ہیں ۔داعش کی دنیا کے مختلف ممالک میں کاروائیوں کے برعکس اب یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کیا داعش مشرق وسطیٰ سے ہٹ کر وسطی ایشیا کی جانب اپنی جگہ بدل رہی ہے ؟

حالات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ داعش  عام طور پر ترک نژاد عوام کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے ۔ یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ داعش کا نیا مرکز بن رہا ہے ۔  کیا یہ دعوے  درست ہیں ؟ ہم اس موضوع کے بارے میں آپ کو  تفصیلی معلومات  فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔ داعش ابتک سینکڑوں دہشت گرد حملے کر چکی ہے   لیکن حالیہ کچھ عرصے سے حملہ آوروں کی شہریت اور نسل زیر بحث ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے  آئیے داعش کے اراکین کا ممالک کے لحاظ سے تقسیم کے موضوع پر ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

مارچ 2016 میں شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق  داعش میں شامل ہونے والے دہشت گردوں کی شہریت تعداد کے لحاظ سے کچھ یوں ہے ۔

تیونس

6500

سعودی عرب

2500

روس

2400

اردن

 

2250

ترکی

2100

فرانس

1700

مراکش

1350

لبنان

900

مصر

800

جرمنی

760

 

ریفرنس۔دی ٹیلیگراف، عراق اینڈ سیریا  ۔داعش کے لیے جنگ کرنے والے دہشت گردوں کی تعداد کتنی ہے ۔

     2015 میں شائع ہونے  والی ایک دوسری  تحقیق کے مطابق  ہر ایک میلین افراد میں سے داعش میں شامل ہونےوالوں کی  ممالک کے لحاظ سے تعداد کچھ یو ں ہے ۔ 

اردن

315

تیونس

280

سعودی عرب

107

بوسنیا ہرزوگونیا

92

کوسوو

83

ترکمانستان

72

البانیہ

46

بیلجئیم

46

اوزبکستان

33

سویڈن

32

فلسطین

28

ڈنمارک

27

تاجکستان

24

فرانس

18

آسٹریا

17

ہالینڈ

15

فن لینڈ

13

روس

12

قزاقستان

8

ترکی

6

کرغستان

5

 

ریفرنس۔ ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لیبرٹی ، فارن فائیٹرز  ِان عراق  اینڈ سیریا۔  داعش کے اراکین کن ممالک سے آئے ہیں۔

 دراصل اس موضوع کے بارے میں  مختلف تحقیقات موجود ہیں لیکن ہم نے صرف دو کو مثال کے طور پر دکھایا ہے ۔ اگرچہ اس موضوع کے بارے میں ہمارے پاس قطعی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں لیکن تحقیقات کے جائزے سے اندازہ لگانا ممکن ہے۔دیگر اعدادوشمار بھی انٹر نیٹ پرموجود ہیں ۔ اگر آپ چاہیں تو وہاں سے اعدادوشمار کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔

اعدادوشمار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  دنیا کے مختلف ممالک کی طرح داعش  میں شریک ہونے والوں میں  مشرق وسطیٰ کے ممالک  کے  بھی ارکین موجود ہیں ۔  لیکن  بوسنیا ،کوسوو اور البانیہ جیسے بلقانی ممالک اور یورپی ممالک   کے مقابلے میں اردن، تیونس اور  مشرقی افریقی ممالک   سے شرکت کی تعداد کافی کم ہے  لیکن علاقائی اور عالمی رائے عامہ  میں مسلسل  داعش کے وسطی ایشیائی ممالک کے دہشت گردوں   کا ذکر ہوتا ہے ۔  اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ  وسطی ایشیائی علاقے  کے بعض ممالک اپنے نظام کو  ریڈیکل اسلامی بیانات اور دہشت گردی کے خوف   دلاتے ہوئے چلا رہے ہیں ۔ یہ پروپگنڈا ان حکومتوں کے مفاد میں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ پروپگنڈا پھیلانے میں یہی ممالک سر فہرست ہیں ۔امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد عوامی جمہوریہ چین     اوگور مسئلے کو ریڈیکل اسلام، القائدہ اور داعش  سے وابستہ کرتے ہوئے سامنے   لایا تھا   لیکن باعث حیرت بات یہ کہ  11 ستمبر کے حملے سے قبل چین نے کبھی  بھی  اوگور مسئلے کو ریڈیکل اسلام سے وابستہ نہیں کیا تھا ۔  ریڈیکل اسلام کے پروپگنڈے سے  چین  فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ روس نے بھی ریڈیکل اسلام کے پروپگنڈے  کا ذکر شروع کر دیا ہے  کیونکہ وہ   اس نظریے سے وسطی ایشیائی ممالک میں سلامتی کے تحفظ کے ایکٹر  کی حیثیت سے اپنے کردار  کو مضبوط بنا رہا ہے اور ان ممالک  سے متعلق اپنی پالیسیوں کو  حق بجانب بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔  دوسری طرف وسطی ایشیائی ممالک کو اچھی طرح  نہ جاننے  والے غیر ملکی ماہرین بھی اس پروپگنڈے کو قبول کرتے  ہوئے اسے پھیلانے میں خدمات  انجام دے رہے ہیں ۔دریں اثناء سیاسی اور نظریاتی مقاصد کے ساتھ ان نظریات کو پھیلانے والے گروپ بھی موجود ہیں ۔  ایسے گروپ ترکی میں بھی موجود ہیں ۔ ترکی کی  غیر جانبدار خارجہ پالیسی اور ترکی کے وسطی ایشیا  کی جانب مائل ہونے سے بے چینی محسوس کرنے والے مختلف گروپ  جان بوجھ کر یہ پروپگنڈا کر رہے ہیں ۔

 مختصراً یہ کہ اس سوال کہ کیا وسطی ایشیا  میں داعش کا خطرہ موجود ہے ؟ کا جواب مثبت میں دیا جا سکتا ہے  لیکن وسطی ایشیا  میں داعش کی موجودگی کا خطرہ  ترکی اور عالمی برادری کی جانب سے بڑھا چڑھا کر بیان کیے جانے کی حد تک موجود نہیں ہے ۔

وسطی ایشیاکو لاحق داعش کے خطرات  کے خلاف جدوجہد میں اہم ترین کردار حنیفی / ماتوریدی صوفی ترک اسلام نظریات  ادا کریں گے ۔صدر رجب طیب ایردوان نے  چند ماہ قبل اوزبکستان کے دورے کے دوران  سربراہان کیساتھ مل کر امام متریدی کے مقبرے کے سامنے جو تصویر اتروائی تھی وہ اس لحاظ سے اہم پیغام کی حیثیت رکھتی ہے ۔



متعللقہ خبریں