ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔40

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔40

820322
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔40

 

پندرہ ستمبر کو پایہ تکمیل کو پہنچنے والے آستانہ مذاکرات   کے ایجنڈے  کا اولین موضوع ادلیب سے متعلق تھا ۔ اب ہم   اس موضو ع سے متعلق اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ  آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

 15 ستمبر کو ہونے والے آستانہ  اجلاس  میں جھڑپوں سے پاک علاقوں کے تعین کے  موضوع پر مطابقت ہوئی ۔  در اصل  چارعلاقوں کو  جھڑپوں سے پاک علاقے  قرار دیا گیاتھا لیکن آستانہ مذاکرات  میں ادلیب کو اولیت دی  گئی کیونکہ اس  علاقے میں کئی گروپ موجود ہیں اور ان گروپوں کے درمیان انتہائی حساس توازن پایا جاتا  ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں  نئی جھڑپیں شروع ہونے کا خطرہ موجود ہے ۔

ترکی ،روس اور ایران    نے آستانہ اجلاس میں ادلیب کی سرحدوں کے تعین اور ان کی کس ملک کی طرف سے حفاظت کی ذمہ داری اٹھانے کے موضوع پر اتفاق کر لیا ہے ۔پریس کی خبروں کے مطابق تینوں ممالک کے  1500 فوجیوں کوجھڑپوں  سے پاک علاقے کی چوکیوں پر تعینات کیا جائےگا  او ر وہ فائر بندی کا کنٹرول کریں  گے  لیکن صرف فوجیوں کی تعیناتی  علاقے میں سر گرم عمل تحریر دمشق گروپ کیخلاف جدوجہد کے لیے ناکافی ہو گی  ۔دراصل پہلے مرحلے میں ہدف تحریر دمشق گروپ کیخلاف جدوجہد  نہیں بلکہ فوجیوں کو  جھڑپوں سے پاک علاقے میں تعینات کرنا اور تحریر دمشق گروپ کو ایک  خاص علاقے تک محدود رکھنا ہے ۔روس ادلیب اور جوار کے  علاقے  کو  اور ترکی اور ایران جھڑپوں سے پاک علاقے  کو تحفظ دینے کا منصوبہ  بنا رہے ہیں ۔یہ صورتحال ترکی کے لیے خطرات  کو سامنے لاتی ہے  کیونکہ ترکی جھڑپوں سے پاک علاقے کی نگرانی کرنے کے لیے جن علاقوں میں فوجی بھیجے گا وہاں تحریر دمشق گروپ کافی طاقتور ہے ۔اگر دیکھا جائے تو آزاد شامی فوج کو طاقتور بنانے کے لیے ترک فوج کے علاقے میں داخلے کو کافی عرصے سے انتظار کیا جا رہا  ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کی طرف سے علاقے میں فوجی بھیجنے  کے بعدسب سے پہلے آزاد شامی فوج اور تحریر دمشق گروپ کے درمیان  اور اس کے بعد ترک فوج اور تحریر دمشق گروپ کے درمیان جھڑپوں کا قوی احتمال پایا جاتا ہے ۔  طرفین کی فوجی تیاریاں بھی اس بات کی غمازی کرتی ہیں ۔

 ترکی ادلیب میں ریڈیکل گروپو ں کیساتھ جدوجہد میں مختلف طرز کی حکمت عملی کو اپنائے ہوئے ہے ۔ ترکی تحریر دمشق گروپ کو کمزور بناتے ہوئے بعض گروپوں کو اس گروپ سے جدا کروانے کے لیے سر گرم عمل ہے ۔ ترکی کی کوششوں کے نتیجے میں تحریر دمشق گروپ میں  منتشر ہونے کا عمل شروع ہو گیا  ہے ۔

ترکی کی ادلیب حکمت عملی کا دوسرا  ہدف اعتدال پسند مخالفین کو  متحد کرتے ہوئے انھیں طاقتور بنانا ہے ۔اس دائرہ کار میں  ترکی آزاد شامی فوج کے منتشر گروپوں   کو ایک چھت تلے لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔  ترکی کی کوششوں سے ادلیب میں آزاد شامی فوج کے گروپوں نے متحد ہونا شروع کر دیا ہے ۔  اس حکمت عملی  کو اپنانے کا مقصد اسد انتظامیہ کے خلاف طاقتور بننے سے زیادہ تحریر دمشق گروپ کے خلاف توازن قائم کرنا ہے ۔

 آستانہ عمل کے بنیادی اہداف کچھ یوں ہیں۔  شام میں ریڈیکل اور اعتدال پسند مسلح گروپوں کو واضح شکل میں ایک دوسرے سے  الگ رکھنا ، ریڈیکل گروپوں  کا خاتمہ کرنا ، اسد انتظامیہ اور اعتدال پسند مخالفین کے درمیان پہلے فائر بندی کروانا اور اس کے بعد  سیاسی حل تلاش کرنا ۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہننانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ادلیب ہے کیونکہ مخالفین کے زیر کنٹرول سب سے بڑا  علاقہ  ادلیب ہے ۔یہاں پر  مخالفین  کا طاقتور مسلح  گروپ النصر امحاذ ہے۔ اس کے مقابلے میں ادلیب کے مخالفین گروپوں میں سے بعض آستانہ عمل کا حصہ ہیں ۔  لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادلیب میں مداخلت ممکن نہیں اور مداخلت  سے  پہلے ادلیب کے ریڈیکل اور اعتدال پسند گروپوں کے درمیان تفریق کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اس علاقے میں ترکی کا اثرورسوخ نہ ہوتا تو علاقے کے کنٹرول کو ترکی کے لیے خطرہ تشکیل دینے والی   بیرونی طاقتیں  اپنے ہاتھ میں لے لیتیں ۔ان حالات کی روشنی میں  ترکی کے لیے  ادلیب میں کاروائی کرنا ضروری ہو گیا ہے ۔

  مستقبل قریب میں ترکی قلیل مدت کے لیے ادلیب کی جھڑپوں   کا حصہ بن سکتا ہے ۔ ادلیب کی جھڑپیں  موسمی حالات  اور صورتحال کی وجہ سے فرات ڈھال کاروائی سے زیادہ طول پکڑ سکتی ہیں ۔ ترکی کی طرف سے ادلیب میں فوج تعینات کرنے کی صورت میں ترکی کو بھی  اپنی لپیٹ میں لینے والا ماحول پیدا ہو سکتا ہے ۔ ادلیب میں جھڑپوں کو روکنے کی کاروائی ترکی کے لیے ملک پار نئے مسائل پیدا کر سکتی ہے ۔ اگر ترکی جھڑپ کے خطرےکو سامنے رکھتے ہوئےفوجی میدان میں کامیابی حاصل کر سکتاہے تو   ادلیب کے علاقے میں فرات ڈھال کاروائی   کے نتیجے میں تشکیل دیےجانے والے سلامتی کے علاقے سے ملتا جلتا محفوظ علاقہ قائم کر سکتا ہے ۔ایسا ہونے کی صورت میں ترکی شام میں مزید موثر ہو سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں ، شام،روس اور ایران کیساتھ تعاون کو فروغ دینےا ور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے والے ترکی  کے لیےدہشت گرد تنظیم پی کے کے اور وائے پی جی کیخلاف جدوجہد میں بعض مراعات حاصل کرنے کی راہیں بھی ہموار ہو سکتی ہیں ۔  اس نقطہ نظر سے انسان کے ذہن میں سب سے پہلے روس کی فوجی موجودگی کا علاقہ افرین     آتا ہے ۔ ادلیب کے بعد ترکی نے  اگر دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور وائے پی جی کے زیر کنٹرول افرین  کے علاقے   میں فوجی کاروائی شروع کی تو یہ  حیران کن بات نہیں ہو گئی ۔



متعللقہ خبریں