اقوام متحدہ اور عالمی عدم توازن

نیویارک میں منعقد ہونےو الے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کا اس ادارے کے ڈھانچے کے حوالے سے ایک اہم تجزیہ

809422
اقوام متحدہ اور عالمی عدم توازن

ہماری دنیا کو انصاف، امن، مساوات،  انکساری اور علم  کی ضرورت ہے تو اسوقت اقوام  متحدہ  کے ناقص   نظام  کے باعث قائم نہ کی جا سکنے والی انسانی مشترکہ اقدار  اس ضرورت کا تقاضا ہیں۔

عالمی سربراہان کے  اس ہفتے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72  ویں سیشن  میں شرکت کی غرض سے   عالمی افراتفری اور  امن کا فقدان ہو  نے والے ایک دور میں  نیو یارک   میں یکجا ہو ئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ  مختلف  ادارے دنیا  کی اچھائی کے لیے   کاروائیاں اور خدمات ادا کرنے کا مقصد رکھتے ہیں تو بھی  اس ادارے کے ڈھانچے میں  بنیادی تبدیلیاں نہ آنے تک  یہ  عجلیت کے حامل  مسائل کا حل تلاش کرنے میں  قاصر رہے گا۔

اقوام متحدہ کے نظام کو سن 1945  میں اس کے سرکاری طور پر قیام سے لیکر ابتک   ایک طاقتور لیڈر،  ضروری  وسائل اور  حقیقی معنوں میں کسی مشترکہ عالمی ایجنڈے  کی کمی کے باعث    چیلنج در پیش ہے۔ امسال  بھی اس صورتحال میں کسی قسم کی کوئی  تبدیلی  رونما  نہیں ہو گی۔  دنیا بھر کی اور   تاریخ  کی سب سے بڑی   آرگنائزیشن   اقوام متحدہ کہ جس کے ارکان کی تعداد 193 ہے،  میں قصدی سیاسی و اقتصادی ایجنڈے  کو دبانے کے لیے  اس عالمی فورم کو استعمال کرنے  کا مقصد رکھنے والی تقریریں   کی جائینگی اور مختلف موضوعات  پر اجلاس  منعقد  کیے جا رہے ہیں۔

تا ہم ، دوسری  جانب  صدور سے لیکر   وفود تک اور اقوام متحدہ کے کارکنان تک پھیلے ہوئے  اس  ڈھانچے   میں شامل بعض  نیک نیت لوگوں کی جانب سے    ہماری دنیا کے مفاد  کے لیے  حقیقی  تبدیلیوں کا مطالبہ نہ کرنے کا  مفہوم  بھی  نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ معاملہ  اشخاص اور  ان کے ضمیروں سے ہٹ کر ، موجودہ  سلامتی کونسل کے ڈھانچے ، کونسل  کے 5 مستقل اراکین کے مفادات کو باقی ماندہ دنیا کے مفادات سے  افضل  ماننے سے   تعلق رکھتا ہے۔  اس سوال کا   منطقی و جمہوری     کوئی ایک جواب نہیں  پایا جاتا۔  آیا کہ کیوں  یہ مستقل  5   ارکان  اقوام متحدہ کے قیام   کے بعد 72 سال بعد بھی  اس کونسل میں  براجمان ہیں اور  اکیسویں صدی میں اپنی  حیثیت  اور صورتحال  کو  کس طرح  جائزہ  درجہ دینے کے  حقدار ہیں۔ یہ صورتحال  اقوام متحدہ کو دنیا بھر میں ہنگامی طور پر   حل  تلاش کیے جانے کے منتظر  تمام تر معاملات میں  ناکام  بنا دیتی  ہے۔

اقوامِ متحدہ  کی جنرل اسمبلی امسال  "انسانوں  پر توجہ مرکوز کرنا: قابل دوام   دنیا میں ہر کس کے لیے امن اور انسانی   اقدار کے مطابق  زندگی بسر کرنے کی جدوجہد"  پر مبنی مرکزی  خیال کے    ساتھ   یکجا ہو گی۔ یہ   ایک بلند  پائے  کی سوچ اور مقصد ہے  جس کے حصول کے لیے ہر انسان  کو خدمات فراہم کرنی  چاہییں۔ مگر عملی حقائق،    عالمی  برادری کی جانب سے غرباء اور مظلوموں کے تحفظ ،  ہر کس کے لیے   انسانی اقدار کے موزوں زندگی " کے قیام میں   اس ادارے کی ناکامی  کو چیخ  چیخ کر  بیان  کرتے ہیں۔  جو چیز حقیقت  ہے وہ یہ ہے کہ  جنگیں    ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں جہاں پر  بڑی طاقتیں   اپنی طاقت  کا مظاہرہ کرتی ہیں اور  اس طرح   ہتھیار بنانے والی فرمیں   کہیں زیادہ    منافع بناتی ہیں۔ یہ بھی  ایک حقیقت ہے کہ ہر گزرتے دن امیر  زیادہ امیر  جبکہ غریب  کہیں  زیادہ غربت کی دلدل  میں پھنستا  چلا    جاتا ہے۔  یورپ کی خوشحال ترین اقوام   اور  متحدہ امریکہ    کی  نظر اندازی   کے سامنے  انتہائی  خستہ  زندگی بسر کرنے  والے  کروڑوں  کی تعداد   میں انسانوں   کی موجودگی اس  حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔

حال ہی  میں اقوام متحدہ کی شائع  رپورٹ ان تمام   تاریک حقائق کی غمازی کرتی ہے ۔ ترقیاتی حق کے موضوع پر   ادارے کے  خصوصی نمائندہ  سعد الفرارغی نے    اپنی رپورٹ  کے  نتائج   کے حوالے سے کہا ہے کہ  ترقی پذیر ممالک  کی عوام  بے قابو ہوتے ہوئے  بگڑتی ہوئی عالمی صورت حال کا خمیازہ بھگت رہی ہے  جس کے شواہد بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے البتہ  کسی اہم تبدیلی  کےلیے  عالمی ذمہ داریوں   اورپختہ  ارادوں کا فقدان موجود  ضرور ہے ۔

  جہاں تک اقوام متحدہ  کی  ذمہ داریوں اور اُس کے کردار  کا سوال ہے تو اس بارے میں جواب  ہمیں فی الوقت  "نا ں" میں نظر آتا ہے  جس کی وجہ   بعض  مفاد پرست ممالک       اور غریب ممالک میں  پھیلے  اُن کے صنعتی جال   کی چاپلوسی کرنا ہے ۔

 دور حاضر میں  اقوام متحدہ  کے ڈھانچے کی مثال  کچھ یوں ہے کہ وہ  رکن ممالک کے درمیان   برابری   اور منصفانہ تقاضوں کو پورا کرنے سے عاری نظر آتا ہے۔سلامتی  کونسل کو ہی لے لیجیئے  ،جو  شام،فلسطین اور میانمار  کی خانہ جنگیوں اور نسل کشی  کے پائیدار حل میں کتنی بے بس نظر آتی ہے ۔

پہلے شام اور اب میانمار کے معاملے میں        اقوام متحدہ کی  قوت فیصلہ    اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ  کسی نتیجے پر پہنچنے کی وقعت ہی نہیں رکھتی ۔  روہنگیا مسلمانوں   پر ہونے والے ظلم و ستم   پر  ان مغربی طاقتوں  کے کانوں  پر کئی ہفتے گزرنے کے بعد جوں رینگی اور انہوں نے اپنا منہ اُس وقت کھولا جب وہاں 4 لاکھ مسلمان،  بدھ نسل پرستوں اور برمی فوج کے   خوف سے  اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

روہنگیا مسلمانوں  کے لیے صرف ایک ہی مرد   مجاہد      کی  آواز بلند ہوئی جس کا نام  "رجب طیب ایردوان" ہے  جنہوں نے  اپنی کوششوں سے  اقوام متحدہ اور  مغربی دنیا کے بے جان ضمیروں   کو اس   بحران    کے خلاف جھنجوڑنے کی کوشش کی ۔

ترکی اس وقت میانمار اور بنگلہ دیش کے روہینگیا مسلمانوں کو امداد بھیجنے والا دنیا کا واحد ملک ہے۔ ترکی کی خاتون اوّل امینہ ایردوان نے دو وزراء کے ہمراہ بذات خود حالات کے مشاہدے کے لئے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ روہینگیا مسلمانوں کو یقین ہونا چاہیے کہ جب تک یہ انسانی فلاکت ختم نہیں ہوتی ترکی ان کی مدد کرنا ہرگز بند نہیں کرے گا۔

جب صدر ایردوان جب  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل نمائندوں کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ "دنیا پانچ سے بڑی  ہے " تو بہت حق بجانب ہیں۔ اس وقت دنیا کو انصاف، امن، مساوات، مرحمت اور بصیرت کی ضرورت ہے  اور اقوام متحدہ کا نظام انسانیت کی ان ابدی و مشترکہ اقدار کی تعمیر میں ناکام رہا ہے۔ اگر یہ خواہش کی جارہی ہے کہ 21 ویں صدی کا کوئی مفہوم اور اہمیت ہو تو اقوام متحدہ  کے نظام کی دوبارہ سے تنظیم و ترتیب کرنا ضروری  ہے۔

تاہم یہاں جو بند گلی ہے وہ یہ کہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کا اس نظام کی دوبارہ سے ترتیب و تنظیم کے لئے رضامندی دکھانا ضروری ہے   لیکن   یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ یہ رضامندی کبھی نہیں دیں گے۔ دوسرا راستہ  یہ  ہے کہ جنرل کمیٹی یعنی 193 رکن ممالک باہم متحد ہو کر تبدیلی پر اصرار کریں۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے فیصلوں میں واحد ووٹ کا حق رکھنے والی اقوام دنیا کی چھوٹی اور غریب اقوام ہیں اور بڑی اور امیر اقوام کے دباو میں ہیں۔ یہ چھوٹی  اور غریب اقوام  امیروں کو للکارنے کی کبھی بھی  جرات نہیں کریں گی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں امیر اقوام کی طرف سے طرح طرح کے مصائب اور دباو کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کا اس پیچیدہ صورتحال سے نکلنے کی صلاحیت نہ رکھنا  نہایت افسوسناک ہے۔ تاہم امید کی کرن کہیں اور ہے۔ دیو ہیکل رکاوٹوں کے باوجود مشابہ ایجنڈے، علم اور وجدان  کے مالک اور ہم فکر ممالک  دنیا کے ضعیفوں مجبوروں  اور غریبوں کے لئے ابھی تک بہت سی نیکی کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے جس واحد چیز کی ضرورت ہے وہ اپنی طاقت کو متحد کرنا ، مشترکہ ایجنڈے کے مطابق کام کرنا اور انصاف، مساوات  اور احترام  کے قیام کے لئے ضروری عزم اور جرات کا مالک ہونا ہے۔

 



متعللقہ خبریں