عالمی معیشت36
ترکی کی کامیاب اقتصادی حکمت عملی
حالیہ 15 سالوں کے دوران ترکی میں بر سر اقتدار انصاف و ترقی پارٹی کی حکومت نے کامیاب اور ملکی مفاد میں جاری اپنی سیاسی و اقتصادی پالیسیوں سے ملک کو کامیابی کی جانب گامزن کر رکھا ہے۔
90 کی دہائی میں ترک معیشت بدترین مالی مشکلات کا شکار تھی جس پر سن 2001 کے اقتصادی بحران نے مزید زبو حالی کی مہر ثبت کردی ۔اس کے بعد انصاف و ترقی پارٹی کا دور آیا جس نے ترکی اوراس کی عوام کی کایا پلٹ دی اور اس کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل کر دیا ۔
سال 2002 تا 2010 کے درمیان ترکی کی شرح نمو کا تناسب 5٫6 فیصد جبکہ 2010 تا 2016 کے درمیان 6٫7 فیصد کے لگ بھگ رہا ۔ سال رواں کی پہلی سہ ماہی کے دوران یہ تناسب 5 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تسلی بخش ہے ۔
لہذا ، حالیہ عرصے میں اندرونی و بیرونی منفی صورت حال کے بر عکس ترکی نے اپنی دور اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت کا پہیہ مستحکم طریقے سے جاری رکھا ۔
سن 2019 میں ترکی میں صدارتی نظام رائج ہوگا جو کہ اوسط آمدنی کے حامل طبقے کو بلند آمدنی کے حامل طبقے میں شمولیت کا موقع فراہم کرے گا۔ علاوہ ازیں اس نئے نظام کے تحت ترکی میں افسر شاہی اور غیر ضروری سرکاری واجبات کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری اور اعتماد کی فضا قائم ہوگی ۔
اس نئے نظام کے نتیجے میں مزید برآں ، غیر ملکی سرمائے کی آمد ،پیداواری استعداد میں اضافے اور معیاری و منافع بخش مصنوعات کی تیاری سمیت افرادی قوت میں اضافہ ہوگا۔ صدارتی نظام کا ایک دیگر فائدہ سرکاری اداروں اور بینک کاری شعبوں کی بہتری اور ترقی کی صورت میں بھی نظر آئے گا۔
ملکی معیشت میں بہتری کےلیے مائیکرو اکانومی کی ضرورت پڑتی ہے جس کی موجودگی سے اقتصادی کارکردگی کی شرح نمو میں توقع سے زیادہ بہتری ممکن ہو سکتی ہے ۔ ترکی میں درمیانی مدت کے حامل ترقیاتی منصوبہ بندی کے اہداف کو اسی اہمیت پر مرکوز رکھا گیا ہے ۔دریں اثنا ، یورپی اور دیگر ممالک سے جاری برآمدات کے تسلسل کو بھی اس ضمن میں برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے منافع بخش مصنوعات کی تیاری اور برآمد خاصی توجہ طلب ہے تاکہ عالمی سطح پر دیگر ممالک سے مقابلہ کیا جا سکے ۔
دوسری جانب افراد قوت کو بڑھانے کے لیے بھی سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے حوالے سے ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے قلیل المدت سرمایہ کاری کے بجائے تاجران ترکی کو ایک قابل اعتماد ملک قبول کریں اور طویل المدت سرمایہ کاری کو ممکن بنائیں ۔