ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ  ۔ 33

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ  ۔ 33

794013
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ  ۔ 33

 ایران میں 19 مئی 2017 کو صدارتی انتخابات  ہوئے اور حسن روحانی  کو دوسری بار صدر منتخب کر لیا گیا ۔ آج کے   اس پروگرام میں ہم صدر روحانی کے دوسرے صدارتی دور اور  مشرق وسطیٰ کے علاقے   پر اثرات  کے  موضوع پر اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ  آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

2013 سے صدر کے عہدے پر فائز صدر حسن روحانی کو حالیہ انتخابات میں دوبارہ صدر منتخب  کر لیا گیا ۔ان انتخابات میں 56 میلین رائے دہندگان میں سے 73 فیصد  نے انتخابات میں حصہ لیا ۔ صدر حسن روحانی نے 57٫3 فیصد ووٹ جبکہ کنزرویٹیو پارٹی  کے  امید وار ابراہیم رئیسی نے 38  فیصد ووٹ حاصل  کیے۔ انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ  صدر حسن روحانی نے اپنے ووٹوں کو  گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں سات فیصد بڑھا لیا ہے ۔ نتائج  کے مطابق  اصلاحات پسند اور اعتدال پسند  اتحاد کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے جبکہ روایت پسند کمزور ہو رہے ہیں ۔

 انتخابی مہم کے دوران امیدواروں نے  خاصکر اقتصادیات   پر زور دیا ۔ اقتصادی وعدوں کی وجہ سے رئیسی کی انتخابی مہم  کافی مقبول رہی لیکن عوام نے صرف اقتصادیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ نہ کیا بلکہ انھوں نے ڈیموکریسی اور آزادی   جیسے اہم معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے  اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔صدر حسن روحانی  نے 2013 کی صدارتی مہم کے دوران نسل پرستی ،مذہب پرستی، نوجوانوں، پریس ،غریبوں ، درمیانی طبقے اور امیر طبقے  تک  کے تمام معاشرتی مسائل کے حل کے وعدے کیے تھے لیکن ایران کے موجودہ سسٹم میں اہم بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کیے بغیر ان وعدوں کو پورا کرنا   ناممکن ہے ۔

 صدر حسن روحانی  نے چند روز قبل نئی کابینہ کا بھی اعلان کر دیا ۔ انتخابات میں ان کی حمایت کرنے والےمتعدد اصلاحات پسندوں نے کابینہ میں خواتین کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ  لیکن جب کابینہ کی لسٹ کا اعلان کیا گیا تو اس میں ایک بھی خاتون وزیر موجود نہیں تھی ۔اس صورتحال کا روایت پسندوں کو  مراعات دینے کی نظر سے جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ روحانی کی کابینہ میں کوئی کوئی ترک نژاد وزیر بھی موجود نہیں ہے۔ایران میں اہم نفوس رکھنے والے ترکوں کوکابینہ میں  شریک نہ کرنا  سیاسی کثرتیت  اور ایرانی ترکوں کے لحاظ سے منفی پیش رفت ہے ۔

اصلاحات پسندوں نے نئی کابینہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے  کہا ہے کہ انقلابی رہنما اور اس سے وابستہ انقلاب پاسداران اور عدلیہ جیسے طاقتور مراکز کے دباؤ کی وجہ سے انھوں نے یہ فیصلہ کیاہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روحانی دوسرے دو ر میں انقلابی اداروں کیساتھ کوئی مسئلہ نہیں چاہتے ہیں ۔ وہ حکومت کے خاصکر اقتصادیات اور دیگر  اہم شعبوں کی ترقی کو اولیت دینے کے خواہشمند ہیں  لیکن فی الحال  یہ نہیں کہا جا سکتا ہے انھیں اپنے مقاصد میں کس قدر کامیابی ہو گی ۔ دوسری طرف روحانی سے آزادیوں کے معاملے میں  اصلاحات کے خواہشمند  اصلاحات پسندوں کیساتھ تعلقات میں بھی نیا دور شروع ہونے کا امکان پایا جاتا ہے ۔

 2015 میں ایران کیساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کے باوجود ایران پر عائد پابندیوں کو پوری طرح ختم نہیں کیا گیا ہے ۔ حکومت کی خواہش کے برعکس  امریکہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ نہ مل سکا اور یورپی یونین کے ساتھ بھی  حسب خواہش سیاسی  اور اقتصادی تعلقات قائم نہ ہو سکے ۔ مشرق وسطیٰ  میں بحران کے عروج پر ہونے کے دور میں  خارجہ پالیسی میں بنیادی ایکٹر نہ بن سکنے والی حکومت کے اقدام کا  بیتابی  سے انتظار کیا جا رہا ہے ۔اندرون ملک بھی یہ موضوع زیر بحث ہے۔  صدر روحانی نے یہ واضح کیا ہے کہ حکومت کے نئے دور کے پروگرام میں خارجہ پالیسی کو حکومت کی مرضی پر چھوڑا جائے گا لیکن ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی ہے  کیونکہ ایرانی آئین ملک کی عمومی پالیسیوں کے تعین کے اختیارات   انقلابی لیڈر کو دیتا ہے۔ انتظامیہ کے سربراہ صدر  انقلابی لیڈر کی طرف سے متعین پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے ذمہ دار ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نئے دور میں ایران میں زیر بحث آنے والے سنجیدہ موضوع کا تعلق خارجہ پالیسی ہو گا۔ حکومت نے انقلابی لیڈر کی توثیق سے ایٹمی مذاکرات شروع کیے گئےتھے اور معاہدہ طےہوا تھا لہذا حکومت اب بھی مشرق وسطیٰ کے بحران سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ۔

نتیجتاً  یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر روحانی  جو ملک کے اندر اہم اصلاحات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں  انھیں سخت جدوجہد کرنی پڑے گی ۔   اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ عالمی اور علاقائی دباؤ  میں نرمی لانے کے لیے  کوششیں کریں گے ۔ ایک ہی وقت میں دو   میدانوں میں جدوجہد انتہائی کھٹن عمل ہو گا ۔  امریکہ اور یورپ کیساتھ تعلقات کو معمول پر نہ لا سکنے والا ایران  عالمی اور علاقائی تعلقات کو   اس  کشیدہ ماحول میں  جاری رکھےگا ۔  دریں اثناء  ایٹمی معاہدے کے بعد ایٹمی منصوبے سے وابستہ پابندیوں کے علاوہ دیگر پابندیوں کے دوام کی وجہ سے حکومت کا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے گزشتہ چار سال سے درپیش مسائل بھی جاری رہنے کا احتمال موجود ہے ۔

 ایران کی اقتصادی ترقی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری حیاتی اہمیت کی حامل    ہے لیکن   ایران پر عائد پابندیوں  کیوجہ سے  اقتصادی پالیسیاں سخت متاثر ہونگی ۔ اس کی روک تھام کے لیے صدر روحانی کو  اندرونی اور بیرونی پالیسیوں  میں بیک وقت  اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اگر ملک کے طاقت کے ڈھانچے کا جائزہ لیا جائے تو صدر روحانی کو آئندہ کے چار سال میں سنگین اندرونی اور  خارجہ پالیسی  کے مسائل پیش آئیں گے ۔

اگر ایران اور ترکی کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ  دونوں ممالک کے  درمیان شام اور عراق کے بارے میں پالیسیاں اختلافات کی اہم وجہ ہیں ۔ خاصکر صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ  اور خلیجی ممالک کا ہدف بننے والا ایران ترکی اور قطر کی حمایت  حاصل کرتے ہوئے صورتحال کو متوازن بنا سکتا ہے  لیکن سب سے پہلے ایران کو شام اور عراق  اور علاقے میں فرقہ وارانہ خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ترکی کے  سلامتی  سے متعلق خدشات کی طرف توجہ نہ دی گئی تو  دونوں ممالک کا ایک دوسرے سے قریب آنا نا ممکن ہو جائے گا ۔



متعللقہ خبریں