ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 32

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 32

788366
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 32

 

ادلیب میں کچھ عرصے سے جاری  جھڑپوں اور شامی بحران کے فریق بعض ایکٹرز  کے ادلیب کے بارے میں بیانات سےتوجہ ادلیب کی جانب مبذول ہو گئی ہے ۔ آج کے   اس پروگرام میں ادلیب کی پیش رفت اور مشرق وسطیٰ کے علاقے   پر اس کےاثرات  کے  موضوع پر اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ  آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

 ادلیب میں مخالف گروپوں کے درمیان جاری جھڑپوں ، ادلیب میں ترک  فوجی بھیجنے کی خبروں اور ادلیب کے بارے میں امریکی حکام کے بیانات سے عالمی برادری کی  نظریں ادلیب  شہر پر مرکوز ہو گئی ہیں ۔ادلیب میں مخالف گروپوں کے درمیان کچھ عرصے سے جاری جھڑپوں کی تین وجوہات ہیں ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ شامی مخالفین کے آخری قلعے کی نظر سے دیکھے جانے والے شہر ادلیب کا نظم و نسق کونسے گروپ کے کنٹرول میں ہو گا ۔دوسری وجہ  آستانہ   مذاکرات کے  نتیجے میں  علاقے کے مخالف گروپوں کا ایک دوسرے کو  خطرے کی نظر سے دیکھنا اور تیسری  وجہ بیرونی امداد کی کمی کی وجہ سے علاقے کے کمزور ذرائع کے کنٹرول کا حیاتی اہمیت اختیار کر جانا ہے ۔آستانہ عمل ادلیب کے لیےاہم پیش رفت ہے ۔ماہ جنوری سے لیکر ابتک ادلیب میں سہ رکنی ڈھانچہ موجود ہے ۔ اسوقت  النصرا سے علیحدہ ہونے والے شامی نجات وفد اور احرار  علاقے کے طاقتور ایکٹرز ہیں۔ ان دونوں گروپوں کے علاوہ  ادلیب  میں استانہ اجلاس میں شریک گروپوں  کی نمائندگی  کرنے والی  آزاد شامی فوج  بھی موجود ہے۔ اگرچہ یہ دیگر گروپوں کے مقابلے میں کمزور ہے لیکن اسے ترکی اور بعض علاقائی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔مخالفین پر مشتمل قومی فوج منصوبے کا  ایک اہم عنصر خیال کی جانے والی نئی  آزاد شامی فوج  کا ہدف ادلیب میں دہشت گرد تنظیم القائدہ  کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہے کیونکہ اگرشامی آزاد وفد  نے ادلیب پر مکمل طور پر کنٹرول  کر لیا تو  ترکی کے لیے ادلیب کی سرحد پر القائدہ کیساتھ رابطہ رکھنے والا شامی نجات وفد واحد طاقت بن جائے گا ۔ یہ صورتحال ترکی کی شام سے متعلق پالیسی اور ملکی سلامتی کے لیے خطرات تشکیل دے سکتی ہے ۔

اس نقطہ نظر  سے امریکہ کے داعش کیخلاف جدوجہد کے خصوصی نمائندے بریٹ میک گرک کے ادلیب کے بارے میں بیان انتہائی معنی خیز ہے ۔ بریٹ میک گرک کے مطابق ادلیب نے  القائدہ کی پناہ گاہ کی شکل اختیار کر لی ہے جس  سے امریکہ سخت بے چینی محسوس کرتا ہے ۔ ان بیانات سے ادلیب  میں ایک  نئی فوجی کاروائی  کے اشارے ملتے ہیں ۔ یہاں پر انسان کے ذہن میں  یہ سیناریو آتا ہے کہ امریکہ ادلیب میں راکا جیسی کاروائی  کرئے گا   یعنی وہ پی کے کے اور پی وائے جی کیساتھ مل کر یہاں پر فوجی کاروائی کرئے گا ۔ اگر ایسا ہوا تو  ترکی  کے لیے آفرین میں مداخلت کی راہیں بند ہو جائیں  گی۔  دہشت گرد تنظیم وائے پی جی  کے اثرو رسوخ  میں اضافہ ہو گا اور علاقے پر  امریکہ  کی حاکمیت بھی بڑھے گی ۔ اگر امریکہ نے  پی کے کے اور پی وائےڈی کیساتھ  مل علاقے میں کاروائی کی تو اس کی تین وجوہات  ہیں ۔ ان وجوہات کا تعلق  ترکی کے  پوری سرحد پر سلامتی کی پٹی قائم کرنے کے منصوبے کو ختم کرنے ،فرات کے مغربی علاقے میں طاقتور اعتدال پسند تین مخالف گروپوں کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے،روس کے ہو میمین فوجی اڈے کو بے چین کرنےاور وائے پی  جی کو افرین میں درپیش مشکلات کو ختم کروانے سے ہے ۔  ترکی اور روس کے لیے اس صورتحال کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے ۔

ادلیب کے مسئلے کا تعلق بحران خلیج سے بھی ہے ۔قطر پر پابندیاں عائد کرنے والےسعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک شام میں بھی قطر کی مقبولیت کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ شامی آزاد وفد کےاہم اراکین  نے ماہ جولائی میں ادلیب میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران ویڈیو پر جو اپیلیں کی ہیں  وہ سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کے بیانات اور ایجنڈے کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ  حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔

دریں اثناء  جمہوریہ ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے یہ بیان دیا ہے کہ  ادلیب میں ترک اور روسی فوجیوں کو تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے ہی  متنا زعہ علاقوں  میں مبصر کے طور پر متعدد ممالک کے فوجیوں کی تعیناتی کا  فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں   رو س نے شروع سے ہی   ادلیب میں القائدہ کے حامی گروپوں کے خلاف  بھر پور جدوجہد کرنے کی شرط  لگا رکھی ہے ۔

 ادلیب کی  وجہ سے  دن بدن قریب آنے والے بحران کی روک تھام کے لیے  ترکی اور روس کے مابین تعاون انتہائی اہمیت رکھتا ہے   ۔ان ممالک کو جھڑپوں سے پاک علاقوں  کے تحفظ کے لیے  اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ ان حالات میں ترکی کی طرف سے حمایت فراہم کیے جانے والے اعتدال پسند مخالفین پر بھی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔

ترکی  کیطرف سے  داعش اور علاقے میں موجود دیگر دہشت گرد گروپوں  کے خلاف شروع کردہ فرات ڈھال فوجی کاروائی سے انتہائی اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ ترکی نے پوری جنوبی سرحد پر پی کے کے اور پی وائے جی  کی راہداری کو ختم کرتے ہوئے یہاں پر اعتدال پسند مخالفین کو آباد  کر دیا ہے ۔  دریائے فرات کے مغربی علاقے منبیچ کے سوا دیگر تما م اہم علاقوں  کو کنٹرول میں لیتے ہوئے سرحدی سلامتی قائم کی  گئی ہے ۔ افرین میں فوجی کاروائی  کرتے ہوئے ترکی اس   راہداری  کے ساتھ امریکہ، پی کے کے اور وائے پی جی کے زیر کنٹرول علاقوں  کےافرین اور اسد قوتوں کے درمیان رابطے کو قطعی طور پر ختم کر سکتا ہے ۔  اگر ترکی اور اعتدال پسند مخالفین نے ادلیب  کے کنٹرول کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا تو پی کے کے اور وائے پی جی کے راہداری قائم کے   عزائم ، ترکی کو شامی علاقے سے باہر نکالنے کے منصوبوں   اور ترکی کے عرب ممالک کیساتھ روابط کو منقطع کروانے کی سازشوں  کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔



متعللقہ خبریں