ترکی یوریشیا ایجنڈہ ۔ 22

ترکی یوریشیا ایجنڈہ ۔ 22

787681
ترکی یوریشیا ایجنڈہ ۔ 22

پروگرام " ترکی یوریشیاء ایجنڈہ " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب  ایردوان نے مختصر عرصہ قبل چین کا سرکاری دورہ کیا۔ ہم بھی اپنے آج کے پروگرام میں اس دورے  اور ترکی۔چین تعلقات کا جائزہ لیں گے۔ اس سلسلے میں اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جمیل دوعاچ اپیک  کا موضوع  سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

کچھ عرصہ قبل ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ،بیجنگ میں منعقدہ بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کرنے اور چین کے صدر شی جی پنگ کے ساتھ ملاقات کے لئے   ، چین کا دورہ کیا۔ ترکی اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات 1971 میں قائم ہوئے اور 1980 سے ترکی اور چین کے درمیان تعاون میں فروغ پیدا ہونا شروع ہوا۔ یہ تعلقات حالیہ دور میں دو طرفہ اعلیٰ سطحی دوروں کے بھی اثرات کے ساتھ مزید فروغ پا رہے ہیں۔

سال 2002 تک خارجہ تجارت  اور بین الاقوامی سرمایہ کاریوں کے شعبے میں ترکی نے اپنا رُخ صرف یورپ کی طرف کر رکھا تھا۔ سال 2002 کے آخر  میں اپنی پرو۔ایکٹیو خارجہ پالیسی کی وجہ سے ترکی نے نئی منڈیوں کا رُخ کرنے کی بھی ضرورت محسوس کی۔ اس  صورتحال کو محسوس کرنے کے بعد صدر ایردوان نے ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ  کے علاقوں کو پہلے سے  زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی۔ ان کے حالیہ دورہ چین کا جائزہ بھی ہم اسی حوالے سے لے سکتے ہیں۔

سال 2010 میں ترکی اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کا سمجھوتہ طے پایا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک اسٹریٹجک پلاننگ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ ترکی اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات ترکی کی اقتصادیات پر مثبت اثرات ڈال رہے ہیں۔ تاہم ترکی کے چین کے لئے خارجہ تجارتی خسارے میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی نے سال 2016 میں چین سے 25.4 بلین ڈالر مالیت کی درآمدات کیں جبکہ   چین کے لئے ترکی کی برآمدات کی مالیت 2.4 بلین ڈالر رہی۔ یہ صورتحال  اسی طرح جاری نہیں رہ سکتی۔ ترکی۔چین اقتصادی تعلقات  کی مضبوطی اور پائیداری کے لئے چین کی طرف سے ترکی میں براہ راست سرمایہ کاریوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے صدر رجب طیب ایردوان اور ان کے وفد نے اپنی سرکاری  ملاقاتوں اور مذاکرات کے دوران، ترک۔چین کمپنیوں  کی مشترکہ ٹیکنالوجی  کے فروغ کے لئے ،سمجھوتوں پر دستخط کئے۔  

چین میں ویزے کے مسائل اور سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے ترک کاروباری حضرات اور طالبعلموں کو منفی شکل میں متاثر کرنے والے اطلاقات آج بھی جاری ہیں۔ ترکی میں سال 2008 میں کھُلنے والے  چین کے کنفیوچیوس انسٹیٹیوٹوں کی تعداد سال 2016 سے 5 ہو گئی ہے۔ تاہم چین کے کنفیوچیوس انسٹیٹیوٹ کے مساوی ترکی کا یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ  تاحال چین میں کاروائیوں کا آغاز نہیں کر سکا۔  ترکی نے چین کے کنفیوچیوس انسٹیٹیوٹ کو جو سہولیات فراہم کی ہیں ایسی ہی سہولیات چین کو بھی ترکی کے یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ کو فراہم کرنا چاہئیں۔

حالیہ سالوں میں مغربی ذرائع ابلاغ کے داعش کے حوالے سے ترکی کو پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کرنے والے حملوں میں چین بھی شامل ہو رہا ہے۔ چین، شامی بحران کو اوئیغور  ترکوں کے مسئلے کے حوالے سے دیکھ رہا ہے اور شام میں ترکی کو اوئیغور ترکوں کے ساتھ تعاون کا قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ چین سرکاری بیانات میں اوئیغور ترکوں کو ایک داخلی مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس معاملے میں دیگر ممالک کی مداخلت کو سنجیدہ شکل میں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ تاہم شام کی طرح چین  سے ہزاروں کلو میٹر کی مسافت پر واقع ایک جغرافیہ میں درپیش انسانی  اور اخلاقی المیہ کے حل  کی کوشش  والے ملک ترکی کو اوئیغور ترکوں  کے حوالے سے قصوروار ٹھہرایا جانا چین کے لئے ایک سنجیدہ سطح کا تضاد ہے۔

چین میں اوئیغور ترکوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سول سوسائٹیوں کی طرف سے سنجیدہ سطح پر ایجنڈے پر لایا جا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دور سے چلتی چلی آنے والی پالیسیاں اوئیغور ترکوں پر سخت دباو کی شکل میں جاری ہیں۔ اوئیغور ترکوں کو دینی آزادی، مادری زبان کے استعمال اور سیاسی سرگرمیوں  کے شعبوں میں سخت مسائل کا سامنا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  اقتصادی رفاح اور مل جُل کر رہنے کے بارے میں چینی حکومت کے بیانات جس قدر پُر زور ہیں  عملی شکل   اسی قدر موئثر  نہیں ہے۔

سال 2016 کے آخری مہینوں میں خاص طور پر ترکی میں 15 جولائی کے حملے کے اقدام کے بعد سے ترکی اور چین کے درمیان تعلقات دوبارہ سے مثبت راستے کی طرف مائل  ہو گئے ہیں۔ ترکی اور چین کے درمیان پہلی دفعہ وزارتی سطح پر ایک مشاورتی میکانزم کا قیام عمل میں آیا۔ ترکی کے لئے چین ایسا کردار ہے کہ جس کا جائزہ صرف ترکی۔چین تعلقات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ علاقائی و گلوبل تعلقات کے حوالے سے بھی لیا جانا ضروری ہے۔ نتیجتاً صدر رجب طیب ایردوان نے بیجنگ میں نہایت واضح اور دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ "ترکی چین کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے"۔

چین 11 ٹریلین ڈالر کی ڈومیسٹک گراس پروڈکٹ کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ آج چین کی ترکی میں براہ راست سرمایہ کاری 60 ملین ڈالر کی سطح پر ہے۔ فریقین اس سطح کے نہایت کم ہونے کے بارے میں متفق ہیں۔ اس وقت ترکی کا ہدف، غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار کو کم کرتے ہوئے، چین کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کو فروغ دینا ہے۔ چین کی ترقی اور بین الاقوامی نظام میں اس کے مقام  کے بارے میں سوچنے پر جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ  موجودہ بحرانی پہلووں کے باوجود ترکی۔چین تعلقات میں فروغ جاری رہے گا۔ ترکی۔ چین تعلقات ترکی کے مغرب کے ساتھ تعلقات  کا نعم البدل نہیں ہے بلکہ ان کا جائزہ ان تعلقات  کی تکمیل کرنے والے تعلقات کی حیثیت سے لیا جا سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں