ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 17

ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 17

767327
ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 17

پروگرام " ترکی یوریشیاء ایجنڈہ" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ قانون اور اس کا اطلاق دو ایسے عنوانات ہیں جو ترکی میں طویل سالوں سے زیر بحث رہے۔ ان موضوعات کے بارے میں  16 اپریل کو ملک میں ریفرینڈم کروایا گیا۔ ہم بھی آج کے پروگرام میں ترکی کے ریفرینڈم اور اس کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔

اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات  کے پروفیسر جمیل دوعاچ اپیک  کا موضوع کے بارے میں تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

ترکی ایک طرف داعش، پی کے کے اور فیتو جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے تو دوسری طرف 15 جولائی 2016  میں ہونے والے غدارانہ حملے  کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان شرائط میں جمہوریہ ترکی کے حالات میں بہتری لانے کے لئے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ  پارٹی  نے ایک آئینی تبدیلی  تیار کی۔ ان آئینی تبدیلیوں کو 16 اپریل کو ترک ملت کی منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ریفرینڈم میں 15.41 فیصد کی شرح سے مثبت نتائج سامنے آئے اور ان نتائج کے ساتھ آئینی تبدیلی کو ترک ملت  کی طرف سے قبول کر لیا گیا۔

ترکی میں اس وقت نافذ العمل 1982 کا آئین خاص طور پر صدر کے اختیارات  اور ذمہ داریوں کے حوالے سے کلاسیکی پارلیمانی نظام سے بڑے پیمانے کے انحرافات  پر مبنی ہے۔1982 کے آئین میں موجود مارشل لاء  کے پہلو کو آج تک کی جانے والی 18 مختلف تبدیلیوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا تھا۔2014 میں پہلی دفعہ صدر کے عوام کی طرف سے انتخاب کی وجہ سے سسٹم میں موجود بحران زیادہ شدت اختیار کر گیا۔ اختیارات اور ذمہ داریوں کے تناقض نے نظام کا بحران پیدا کیا۔

12 ستمبر 1980 کے حملے سے شروع ہو کر 15 جولائی 2016 کے حملے کے اقدام تک آنے والے مرحلے نے آئینی شرائط، فرائض اور اختیارات کا واضح شکل میں  تعین کرنے کے لئے سنجیدہ پیمانے پر آئینی تبدیلی  کو ایک مجبوری  بنا دیا۔

جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی  اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کی تیار کردہ اور ریفرینڈم میں منظور ہونے والی آئینی تبدیلی کے مندرجات کچھ اس طرح ہیں۔

  • آئینی تبدیلی سے حکومتی نظام میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ اس تبدیلی   سےاختیار کے  دو عنوانات کالعدم ہو جائیں گے اور انتظامی  اختیار ات صدر کے پاس ہوں گے۔
  • قانون سازی کا اختیار خاص طور پر ترکی کی قومی اسمبلی کو دیا گیا ہے ۔ حکومت  کے قانونی بلوں کے ساتھ قانون سازی پر حاوی ہونے کا سدباب کیا جا رہا ہے۔ قانون سازی اور اس کا نفاذ  مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ کیا جا رہا ہے۔ قوتوں کی ایک دوسرے سے علیحدگی واضح اور دو ٹوک شکل میں تشکیل پا رہی ہے۔
  • صدر کی عملی و قانونی استثنائیت ختم ہو رہی ہے اور صرف وطن کے ساتھ غداری  پر ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے اقدامات اور کاروائیوں کے حوالے سے سزا اور سیاسی ذمہ داریوں کو عائد کیا جا رہا ہے۔
  • حکومت بنانے والی سیاسی پارٹی  اور قانون میں اکثریت کی حامل سیاسی پارٹی کے ایک ہی پارٹی ہونے کی شرط ختم ہو رہی ہے۔  اپنی سیاسی پارٹی کے ساتھ  صدر کا رابطہ منقطع ہونے کی شرط ختم ہو رہی ہے۔  منتخب ہونے کے لئے عمر کی شرط کم ہو کر 18 سال تک ہو جائے گی اس طرح ترکی کے نوجوانوں کے سیاست میں آنے کا راستہ ہموار ہو گا۔ قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 600 تک بڑھ جائے گی اور اس طرح اسمبلی کی نمائندگی کی  صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔
  • صدارتی  قانونی فیصلے قانونی اختیار اور قوت کے حامل نہیں ہوں گے ۔قانونی فیصلے قانون  کے ذریعے طے شدہ موضوعات کے بارے میں نہیں ہوں گے۔ قومی اسمبلی اگر اسی موضوع پر قانون پاس کرتی ہے تو اس صورت میں صدارتی قانونی فیصلے غیر فعال ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ قانونی فیصلے سپریم کورٹ  کی مانیٹرنگ کے بھی تابع ہوں گے۔
  • دیوان اعلیٰ  کے حوالے کرنے میں آسانی پیدا ہو رہی ہے اور اس طرح قانونی اختیار کی احتسابی قوت میں اضافہ ہو گا۔
  • قومی اسمبلی  اور صدارتی انتخابات 5 سال میں ایک دفعہ اور ایک ہی دن کروائے جائیں گے۔ صدر کے انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا فیصلہ کرنے پر خود صدر کا عہدہ بھی ختم ہو جائے گا۔
  • عدالیہ کا خودمختار ہونے کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار ہونا  بھی آئین سے منسلک ہے۔13 ججوں اور اٹارنیوں کی کمیٹی کے 7 اراکین کا انتخاب پہلی دفعہ قومی اسمبلی کی طرف سے کیا جائے گا۔

نئے نظام  کی اہم ترین تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اختیار براہ راست قوم کے ہاتھ میں ہو گا۔ قانون سازی اور اس کا نفاذ  واضح شکل میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے حکومت اسمبلی سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ اس صورت میں اعتماد کا ووٹ عوام دے گی۔

نئے نظام  حکومت کے بارے میں دعوے کئے جا رہے ہیں کہ اختیار واحد شخص کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ان دعووں کے بالکل برعکس نئے نظام  کا فراہم کردہ  مضبوط توازن اور  احتسابی میکانزم کی طفیل اتھارٹی قائم کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ نظام   چلانے کا تمام کام اور کاروائیاں قانون اور عدلیہ کی مانیٹرنگ کے تابع ہوں گی۔

حاصل کلام یہ کہ 15 جولائی کے حملے کے اقدام سے لرز اٹھنے والے ترکی نے   پرانے راستے سے چھٹکارے کے عمل کو کامیابی کے ساتھ پورا کر لیا ہے۔ حکومت کے مضبوط  نہ ہونے کی صورت میں سریع فیصلے نہیں کئے جا سکتے تھےا ور نظام میں عملی و قانونی تضادات  کی موجودگی کی صورت میں ترکی کا 2023 اور 2053 کے اہداف تک رسائی حاصل  کرنا دشوار تھا۔ حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے سب سےپہلے آئین کی تجدید ایک معقول کاروائی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے حل غیر ملکی قوتوں  کے تعاون میں نہیں بلکہ ترک ملت میں تلاش کیا۔ ترک ملت نے اپنے مستقبل کے بارے میں آخری فیصلہ خود کیا۔ اس طرح ترک ملت باہمی مفاہمت  کے ساتھ متحد ہوئی ، مضبوط ہوئی اور اپنے مستقبل کو ضمانت میں لے لیا۔



متعللقہ خبریں