حالات کے آئینے میں 23

دہشت گردی کی وبا اب دنیا بھر میں پھیل چکی ہے اور کوئی بھی ملک اس کے سامنے تحفظ میں نہیں ہے

746663
حالات کے آئینے میں 23

 مشرقی   بلاک کے منتشر ہونے کے بعد  دنیا    نے  ایک قطب کی  ماہیت حاصل کر لی۔ سن 1945 میں   طے پانے والے  یالٹا  معاہدے   کے ساتھ  ایک   نئے   ڈھانچے  کی شکل اختیار کرنے والی   دنیا   کو اسوقت  سنجیدہ  سطح پر  رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

2 جولائی سن 1990 کو سلووینیا  کے اعلان  ِ آزادی کے  ساتھ ہی   یوگوسلاویہ  میں خانہ جنگی چھڑ گئی جو کہ  یالٹا نظام  کے   لیے  نتیجے   کا   ایک آغاز ثابت ہوئی۔

اس کا     انجام   انتہائی  خونریز      رہا، بوسنیا ہرزیگوینیا میں  مسلمانوں کے خلاف  تاریخ کا   بڑا ترین  قتلِ عام ہوا۔ یہ نسل کشی ،  یورپ   کی آنکھوں کے سامنے ہوئی، حتی بعض قتل عام   کا سانحے  یورپی  فوج کی نگرانی میں   ہوئے۔

یاد رہے کہ ولندیزی    عدالت نے   جولائی 2014 کو،    اپنے ملک کی فوج   کے  سربرینٹسا   میں  دس ہزار کے لگ بھگ بوسنیائی    مسلمانوں  کے سربوں  کی جانب سے قتل کیے جانے  کا ذمہ دار    ہونے  کا حکم صادر کیا تھا۔   جمہوریت اور انسانی  زندگی کے تقدس  کا   مرکز ہونے  کا واویلا   مچانے والے یورپ  نے اُس دور میں  سربوں کے   قتل عام   سے بچنے  کے لیے  یورپی ملکوں میں پناہ لینے کے  خواہاں  5 لاکھ سے زائد بوسنیائی شہریوں  پر اپنے دروازے  بند کر دیے تھے۔  آسڑیا،  جرمنی اور اٹلی  نے  دوسری عالمی  جنگ کے  بعد پہلی بار  24 گھنٹے  لگاتار  سرحدی   چوکیوں کو سخت  پہرے میں لیتے ہوئے   ایک سیکورٹی پٹی  بنائی   تھی۔  راہ فرار      کے تمام  تر  راستے  بند ہونے والے   بوسنیائی شہریوں   کے ساتھ   سرب درندوں   نے خون کی ہولی کھیلی  تھی۔

نیٹو  کی  یوگوسلاویہ  کی خانہ جنگی  میں   مداخلت نے   کچھ حد تک  امن  کی امیدوں کو پیدا کیا تھا۔  اس کے بعد  امریکہ کا جوہری اسلحہ کے دعوے  کے  ساتھ سن 1991 میں عراق پر اور اس  کے بعد  افغانستان     پر قبضے  نے    کرہ ارض  کو  دہشت گردی کے گرداب میں  پھنسا دیا۔

 عصر حاضر میں پیش آنے والے   دہشت گردی کے واقعات کے اسباب۔ نتائج تعلق  پر اب نہ صرف  مسلم اُمہ اور مشرقی ملکوں میں بلکہ   مغرب میں   بھی    سنجیدہ سطح پر   بحث کی جا رہی ہے۔   سبب  اور نتیجے کا تعلق  چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو کوئی بھی  دہشت گردی کی کاروائی   معصوم  تصور نہیں کی جا سکتی۔

دہشت گردی  کی کاروائیاں تقریباً ایک صدی   سے د نیا بھر کے لیے وبالِ جان  بنی ہوئی ہیں۔

جمہوریہ ترکی  کے صدر   رجب طیب ایردوان  سالہا سال سے  مغربی اتحادیوں کو    اٹل طریقے سے دہشت گردی   کی سرحدیں نہ   ہونے  کو بیان کرنے کی کوششوں میں  مصروف ہیں اور دہشت گردی   کی پشت پناہی کرنے والوں کے ایک نہ ایک دن اس بلا  کا بذات ِ خود سامنا کر سکنے پر توجہ مبذول دلانے   میں  سرگرداں ہیں۔

ترکی نے  PKK اور اس  کی شام میں شاخ پی وائے ڈی۔ وائے پی جی      کے ہاتھوں   ہزاروں کی تعداد میں  اپنے شہریوں کی قربانیاں   دی ہیں۔   ترک حفاظتی قوتوں کی  جانب  سے   PKK اور  اس   کی شاخوں  کے خلاف آپریشنز میں  برآمد کردہ  اسلحہ، راکٹوں اور میزائلوں  کے مغربی ملکوں  کی پیداوار ہونے   کا   کوئی نا کوئی   جواب تو ہونا ہی چاہیے۔

تقریباً  نصف  صدی سے   ترکی اکیلا   دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے  تو اس جنگ میں  اس کے متعدد  مغربی اتحادیوں نے اسے تنہا  چھوڑ رکھا ہے۔   اس  بھی ہٹ کر  نیٹو میں    اور سیاسی و  تجارتی    اعتبار سے   ترکی کے  اتحادی ہونے  والے کئی ایک یورپی ممالک  اسوقت    دہشت گردوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ مہینوں میں  ترک  فوج کے اندر سرایت کر نے والے   دہشت گرد تنظیم فیتو کے  فوجی افسران  نے   ترکی  میں بغاوت کی کوشش  کی اور سینکڑوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کو زخمی بھی کر ڈالا۔  متعدد  شہریوں کے خون سے اپنے  ہاتھ  رنگنے  والے  ان  فوجیوں  کا  جرمنی سمیت   کئی  یورپی  ملکوں   میں  پر تپاک طریقے سے خیر مقدم کیا گیا۔

مملکتِ ترکی نے    بار ہا جرمنی  میں پناہ لیے ہوئے 4500 کے قریب دہشت گردوں اور  دہشت گرد ہونے کاشبہہ  ہونے والے  افراد کی حوالگی کی درخواست کی ہے، تا ہم  جرمنی اور  جرمن حکومت  نے ان درخواستوں پر  کبھی بھی  کان  نہیں دھرے۔ مثال کے طور پر ترکی میں  ایک   نامور  بزنس مین کو قتل   کرنےو الی         دہشت گردہ  فخریہ ایردال کہ جس  سے پوری دنیا  آگاہ ہے  گزشتہ 20 سالوں سے بیلجیم  میں کسی  مہمان کے  طور پر  زندگی بسر  کر رہی ہے۔  ترکی میں فوجیوں،  پولیس اہلکاروں، بچوں ، خواتین و عمر رسیدہ   لوگوں کو  قتل کرنے والے    تمام تر دہشت گردوں کا مشرقی ملکوں  کے بجائے   یورپ   میں پناہ لینے کا کوئی نا کوئی جواب تو ہونا ہی چاہیے۔ ذرا اس تضاد کو تو دیکھیں، مغربی ممالک  خاصکر  یورپ    ہمیشہ مشرق  پر  دہشت گردوں کے  گھڑ  ہونے کا الزام لگاتا ہے۔  ہمیں  اس بات پر بڑا تجسس ہے کہ  آیا کہ ہمارے مغربی اتحادی  اس متضاد صورتحال کو   اپنے بچوں کے سامنے  کس طرح بیان کریں  گے؟

دہشت گردی نے    اپنے وحشی چہرے کو  گزشتہ دنوں  برطانیہ میں دکھایا۔ اس سے قبل  سویڈن، جرمنی، بیلجیم اور فرانس کی طرح کے یورپ کو  یورپ  بنانے والے    ملکوں   کے شہروں میں دہشت گردی  نے اپنے  گھناؤنے چہرے کو دکھایا، اس نے سینکڑوں معصوم انسانوں کی جانیں لیں۔

کل تک مشرقی ملکوں کے  شہروں اور دارالحکومتوں میں بم پھٹ رہے تھے   جن سے معصوم انسانوں کی جانیں جا رہی تھی۔ تا ہم  آج  مغربی شہر مشرقی  ملکوں کی حد تک  حملوں کی زد میں ہیں۔

 دہشت  گردی نے  کسی واحد مرکز سے یا پھر   کسی  خاص مقام سے  نکلتے ہوئے  دنیا     بھر  میں   پھیلنے والے     جُرم ہونے  کی شکل کو تبدیل کر لیا ہے۔ اب   مقامی طور پر   ہونے والے دہشت گرد  حملوں کی خبریں سامنے آنے لگی ہیں۔ایسا  لگتا ہے کہ  یہ کسی موذی مرض کی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں  لے لے گا۔

کیونکہ  دنیا  کی طاقتور مملکتیں ، انصاف کے نظام کو  صحت مندانہ طریقے سے لاگو  کرنے کے بجائے   اپنے قومی اور  سیاسی مفادات  سمیت  اپنے خوف  کو    بالائے  طاق رکھ رہی ہیں، جو کہ بعض انسانوں کو شدت پسندی     کی جانب راغب کرتا ہے۔ سوویت یونین  کو منتشر کرنے  کے لیے ہونی والی خونی  دہشت  گرد کاروائیوں کو "انقلابی  تشدد"  کے  نام  کی آڑ میں قانونی حیثیت دلانے کی  کوششیں کی گئی تھیں۔ ایسا ہے کہ  عصرِحاضر میں  دہشت گرد کاروائیاں   اب  کسی نقاب کو  اوڑھنے  تک کی  ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا  ہے کہ دہشت گردی  کے   دنیا اور انسانی زندگی کو  گروی  بنانے والے   اس دور میں یورپی یونین  کے رکن ممالک  کئی دہشت گرد تنظیموں  کی میزبانی  کر رہے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں ترک، عراقی، ایرانی   اور  شامی    شہریوں کےقتل کے مرتکب یا پھر اس  چیز کا حکم  دینے والے   دہشت گرد  یورپی ملکوں میں  آزادانہ طور پر قیام کرسکنے  کے مجاز ہیں۔  حتی  یورپی اتحادی اس قدر لاپرواہی سے کام  لے رہے ہیں  کہ   15 جولائی سن 2016 کی  فوجی بغاوت     میں  شریک   اور سینکڑوں شہریوں کا  خون بہانے والے   ترک  فوجی  افسران  کے لیے   انہوں نے اپنے دروازے پوری  طرح کھول رکھے ہیں۔

ترکی میں   ساز باز     کرتے ہوئے  انسانوں  کی زندگیوں کو تباہ کرنے   والے اور  کئی لوگوں کی ہلاکتوں کا موجب بننے والے دہشت گرد کہ جنہوں نے   جج اور   اٹارنیوں  کے    لبادے اوڑھ رکھے تھے    نے      دہشت گردی کی اور     قومی وسائل کو  اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔

خوشحالی    کی زندگی بسر کرنے والوں کی جانب سے  انفرادی  طور پر دہشت گرد کاروائیاں کرنے یا پھر داعش     میں    شمولیت اختیار کرنے  کو "بیگانہ بنائے جانے " کے ساتھ  تشریح نہیں کی جا سکتی۔  انسانوں کا تقاضا ہونے والے انصاف کے ترازو   پر عمل در آمد نہ کرنا   بھی  پر تشدد واقعات  کو شہہ دیتا ہے۔ نتیجتاً بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یورپی یونین کے   کئی  ایک  رکن ممالک     اپنی پالیسیوں  کی بدولت  اپنے   لیے  فلاکتوں کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔



متعللقہ خبریں