اصل اہم چیزنفس و روح سے روزہ رکھنا ہے، ابراہیم قالن

روزہ ارادے کی وساطت سے انسان کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچنے کے لیے عقل و منطق   اور خواہشات کو استعمال کرتے ہوئے  دنیاوی لذتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے

742168
اصل اہم چیزنفس و روح سے روزہ رکھنا ہے، ابراہیم قالن

ماہ رمضان کے آغاز  کے ساتھ ہی  روزوں  اور عبادت  کے  نفس اور  روح کی گہرائیوں تک پہنچنے  کے لیے دعا کرنے   کی ضرورت ہے۔

مسلمان جن  پر روزہ  فرض ہے آج سے  صبح  سورج کی کرنوں کے پھوٹنے  سے قبل     اور سورج کے غروب ہونے   تک   روزہ  رکھتے ہوئے  ماہ رمضان کا آغاز کرچکے ہیں۔ انسان اپنے ذاتی مفادات  کی پروہ کیے بغیر  اور دنیا  وی کاموں کی پراہ کیے بغیر  ایسے میں انسان کا روزے رکھنا   عجیب لگ سکتا ہے ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے  روزہ   ایک جسمانی  نہیں بلکہ   ذہنی اور روحانی  عبادت کی حیثت رکھتا ہے  اور ہمیں  انسانیت کے بلند ترین درجے تک پہنچانے  کا وسیلہ بنتا ہے۔ 

روزہ رکھنا عقل اور ارادے  کی نشانی ہے ۔ اگر کسی شخص کا ذہن  روزے کے دینی مقصدکو قبول نہیں کرتا تو وہ  روزہ نہیں رکھ سکتا ۔  کسی شخص کو روزہ رکھنے  کا فیصلہ کرنے کے لیے اس کے پاس    روزے کے موضوع پر کافی  معلومات  رکھنے کی  ضرورت ہےاور  یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے ۔ دماغی توازن سے محروم انسان مذہبی ذمہ داریوں سے  آزاد ہیں ۔  روزہ انسان کو اپنی خودی اور دنیا میں غور و فکر سے آگاہ کرتا ہے ۔ روزہ رکھ کر کھانے پینے سے پرہیز کرنےاور جسمانی خواہشات سے دور رہنے کے لئے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا تعلق در   اصل بدن سے زیادہ ذہن اور ارادے سے ہے ۔

روزہ ارادے کی وساطت سے انسان کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچنے کے لیے عقل و منطق   اور خواہشات کو استعمال کرتے ہوئے  دنیاوی لذتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے  لیکن انسان اپنے آپکو روزے کی حقیقت پر رضا مندکیےبغیر اور اپنے ذہن اور بدن کی تربیت کیے بغیر ایسا نہیں کر سکتا ۔

تا ہم اس سے بھی زیادہ اہم چیز   روحانی   اور نفسی طور پر  روزہ رکھنا ہے۔   ان  دونوں اصطلاحوں کا اصل مفہوم   روشن  خیال اور  بعد میں   صارف کنندہ  معاشروں  میں  اہم  سطح پر  ختم  ہو چکا ہے۔ بعض  حالات  میں   یہ دونوں اصطلاحات   اب انسانی صورتحال   میں  بھی  استعمال        نہیں  کی جاتیں۔  لیکن  ہزار  ہا برسوں سے بنی نو انسان  محض ذہن و بدن   کو نہیں  بلکہ    نفس و روح کا   انسان کا درجہ  دیتے  چلے آئے ہیں۔

پیچیدہ انسانی   فطرت   کی  جدیدیت کی ایک دوسری  پسندیدہ  اصطلاح "شعوری یا پھر غیر شعوری  طور پر" انسانی     فطرت کے دوسرے چہروں کو   سائنس و علم کے منافی اور / یا پھر   الہیاتی کہتے ہوئے اسے  نظر انداز کیا جانا    ایک ذی فہم نہ ہونے والے   ہرجانے کے عوض سامنے آیا ہے۔  انسانی نفس  و  روح کو  نفسیاتی منطق  سے  وابستہ   کیے جانے نے انسانی صورتحال کو   پست قدمی   کی ماہیت    میں ڈھالا ہے۔

اسلامی رسم و رواج میں 'نفس'  انسان   کے   شخصی طور پر   اس کے  مکمل   وجود کی جانب  اشارہ کرتا ہے،  اس کے روحانی      سالمیت   سے لیکر اخلاقی زوال پذیری اور  اس کے اپنے وجود کو کھونے تک مختلف    درجے  موجود ہیں۔

نفس انسانی  ایک ایسی حس ہے جو   کہ ہمیں  کسی جانور  یا   مہذب انسان  میں تبدیل کر سکتی ہے۔

 یہ نفس ایک ایسی طاقت ہے  جو کہ ہمیں    فطرت  الہی   کی خوبصورتیوں  کے اجالے میں یا  پھر  بدصورتیوں کی  تاریکی  میں دھکیل دیتی ہے  یہی وجہ ہے کہ  روز دار کو اپنے نفس پر  مکمل قابو پانے    کی ضرورت ہوتی ہے  جو کہ  نفسانی خواہشات کو کم کرنے میں  معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

 روز مرہ کی  زندگی میں ہم "روح   "کے  لفظ   کا صحیح مطلب سمجھنے میں لگے رہتے ہیں جس کا حقیقی   مفہوم    اخلاقی   لحاظ   سے  ذرا  کم نظر آتا ہے۔  روح کا  مفہوم   اگر عام زبان میں  دیکھا جائے تو  اسے   کسی بھی  جاندار جسم کو  جان  دینے کےلیے  اللہ  استعمال کرنے کا حکم اپنے فرشتوں کو دیتے ہوئے اپنی قدرت کا برملا اظہار کرتا ہے۔  دنیا میں  ہماری موجودگی ربط الہی کا  وسیلہ ہے    اور ہم اپنی ارواح   کی صحیح تربیت کرتےہوئے   قُربت الہٰی  کا صحیح لطف اٹھا سکتے ہیں اور اگر  ایسا نہ کریں تو ہمارے عادت و اطوار جانوروں سے بد تر ہو سکتے  ہیں۔

ان تنبیہات کو عقل میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ روزے کی حالت میں انسان صرف بدن کے ساتھ ہی نہیں بلکہ نفس اور روح کے ساتھ بھی حقیقی  معنوی بالیدگی  تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ فرد کا ایک مخصوص دورانیے میں جسمانی خواہشات سے دور رہنے کے لئے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا نہایت اہم روّیہ ہے۔ یہ صورتحال باقی سب کے ساتھ ساتھ معنوی سفر کے لئے بھی ایک تیاری کا مفہوم رکھتی ہے۔ کیونکہ جیسے جیسے ہم مادی دنیا سے   دُور ہٹتے جاتے ہیں معنوی دنیا سے فیض حاصل کرنے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

تاہم اسلام ، ہمیں ہمیشہ  میانہ  روی اختیار کرنے کی تلقین کرنے کی وجہ سے ، انتہائی درجے پر نفس سے دور رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔  طلوع آفتاب سے پہلے سے لے کر غروب آفتاب تک جاری رہنے والے روزے کے بعد ہمیں بدنی و روحانی ایثار و قربانی  پر خوشی منانے کے لئے انعام کے طور پر پیش کئے گئے کھانے سے لطف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف ہماری اپنی بدنی ضروریات کو پورا کرنے کی غذا ہے ، اصل چیز ہمارا ،رات کی عبادت ، ذکر اور تفکر کے ساتھ  معنوی سفر کو جاری رکھنا ہے۔ اپنے نفس اور روح  کی درست پرورش کرنے  کی صورت میں ہم زیادہ سیر اور مطمئن شخصیت کی شکل اختیار کر جائیں گے۔



متعللقہ خبریں