حالات کے آَئینے میں 20

ترکی اور روس کے درمیان "حصہ داری تعلقات پر ایک جائزہ

733386
حالات کے آَئینے میں 20

مورخہ  3 مئی  2017 کو  روسی شہر سوچی  میں منعقدہ  پوتن۔ ایردوان سربراہی اجلاس   ماضی قریب    کے ترکی۔ روس تعلقات میں ایک نئے  باب  کے آغاز کا سبب بنا  ہے۔ کیونکہ ان مذاکرات میں توانائی سے لیکر  دفاعی  صنعت تک، زراعت سے لیکر  خلائی  ٹیکنالوجی تک، سٹریٹیجی سے سلامتی   تک اور سیر و سیاحت سے لیکر  ثقافتی امور  تک    کے کئی ایک معاملات  کو زیر غور لایا گیا اور  تمام تر  معاملات میں  چند ایک معمولی   سطح  کے مسائل  کے  علاوہ   مطابقت قائم ہونے  کا مشاہدہ ہوا ہے۔ اس سربراہی    ملاقات  کے بعد  جاری کردہ  بیانات  میں دونوں سربراہان نے روس۔ ترک تعلقات  کو "معمول  پر لانے  کے عمل "  کے پایہ  تکمیل کو پہنچنے  اور اب 'مشترکہ تعلقات' کی سطح   پرپیش    قدمی کرنے کا واضح طور پر اظہار کیا   ہے۔ تا ہم اس نتیجے  تک رسائی  آسان  ثابت نہ ہوئی   اور  دونوں ملکوں  کے باہمی تعلقات  کو   کئی امتحانات سے گزرنا پڑا۔

اگر تاریخی   اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو اس بات کا مشاہدہ  ہوتا ہے کہ  ترکی اور روس کے باہمی تعلقات  اکثر    اونچ   نیچ  کا شکار رہے ہیں۔ یہ دونوں  یوریشیا  کے  محل و وقوع میں  تاریخی  و  جغرافیائی   گہرائی    کی  حامل دو طاقتور   ریاستیں ہیں، ایک  عالمی     طاقت  ہے   تو دوسری    اس  سطح  کے حصول میں     کوشاں ہے۔   ماضی  قریب میں   رونما ہونے والے   بعض  واقعات    ترک۔ روسی   تعلقات کے  عالمی ایجنڈے  میں نمایاں سطح  پر    رہنے   کا موجب بنے تھے۔24 نومبر سن 2015  کو  شامی سرحدوں کے   جوار میں  ایک روسی  لڑاکا طیارے کا ترک جنگی طیاروں کی  جانب سے  گرایا  جانا دونوں  مملکتوں  کے درمیان   عظیم سطح کے بحران   کا موجب بنا تھا۔ بعد ازاں دسمبر 2016 میں  انقرہ میں متعین روسی سفیر  آندرے  کارلووف  کا   ایک تقریب کے دوران قتل   اور اس کے بعد    کے  دنوں میں  شام میں  جاری فرات اور دجلے ڈھال آپریشنز   روس اور ترکی کے درمیان  گاہے بگاہے سیاسی و سٹریٹیجک  مسائل و تنازعات کا  موجب بنتے  رہے  ہیں۔

لیکن  یورپی یونین   اور امریکہ  کی جانب سے  کریمیا  کے مسئلے  کے حوالے سے روس پر اقتصادی و سیاسی  پابندیاں عائد  کرنے اور  نیٹو کی جانب سے دوبارہ عمومی حکمت  ِ عملی  پر عمل پیرا ہونے اور  روسی سرحدوں کے جوار میں  یعنی   پولینڈ اور بالٹک ملکوں  میں اضافی  فوجیں اور اسلحہ  جمع   کرتے  ہوئے  علاقے کا محاصرہ کرنے نے  روس کو دوبارہ    نئی  راہوں کی تلاش  پر مجبور کیا۔  روس  ایک جانب سے  یوریشیا  بلاک   کی  قیادت کو   اپنے  ہاتھ میں لیے ہوئے ہے تو دوسری جانب  اس بلاک کو تقویت دینے کے زیر مقصد ترکی   سے تعاون کو فروغ دینے  کی جستجو میں ہے۔ مغربی بلاک اور یورپی یونین   کی طرف سے اسی  طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے والے ترکی نے   واشنگٹن اور برسلز  کے ساتھ توازن  قائم کرنے   کے زیر مقصد  اس کی دہلیز تک آنے والے ماسکو  کے  مہرے  کو استعمال  کرنے  میں  کسی ہچکچاہٹ کا مظاہر نہیں کیا۔ اس ہدف  کو عملی جامہ پہنانے کے   لیے  صدر ایردوان  کی جانب سے 27 جون سن 2016 کو تحریر کردہ   معذرت کا  خط  ماسکو اور انقرہ کے درمیان  سرد مہری  کے  خاتمے  میں بار آور ثابت ہوا تھا۔

اس سے  بعد کی پیش رفت سے لیکر   تین  مئی  کو منعقدہ   سربراہی اجلاس تک پوتن اور ایردوان  کی 5 بار ملاقات  سر انجام پائی ،   اسی  طرح   دونوں ملکوں کے وزراء کے درمیان  متعدد ملاقاتیں  ہوئیں ، علاوہ ازیں   روسی اور ترک مسلح افواج کے سربراہان    کے درمیان  مذاکرات  بھی سر انجام پائے۔ اقتصادی، خارجہ پالیسی، فوجی، سیاسی و سوشیو کلچرل   امور  کی   طرح کے وسیع  معاملات پر  مبنی   ان اجلاس میں    تمام تر موضوعات پر  مطلوبہ   نتائج  حاصل  نہ  کیے جا سکے۔

خاصکر  عسکری، سٹریٹیجک  اور سیکورٹی معاملات   دونوں مملکتوں کے درمیان  مسائل  پیدا ہونے والے  شعبوں میں شامل ہیں، یہ صورتحال خاصکر شام  کے حوالے  سے دونوں ملکوں کی پالیسیوں   میں نمایاں رہی ہے۔  روس ،  ترکی کی جانب سے دہشت گرد  قبول کردہ PKK۔ PYD اور وائے پی جی  کی   طرح کے عناصر کو اسلحہ اور لاجسٹک     تعاون   فراہم کر رہا  ہے  تو ترکی کے  سلامتی کے مقاصد کے حامل شمالی عراق اور شمالی شام میں  دجلے  ڈھال آپریشن کی  بھی  مخالفت کرتا ہے۔ تا ہم عمومی طور پر فوجی، سیکورٹی اور حکمت عملی جیسے  معاملات میں پیدا ہونے والے تنازعات دونوں ملکوں کے باقی ماندہ  معاملات  میں تعاون قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ تشکیل نہیں دیتے۔  یہ صورتحال  باہمی تعلقات   میں اب  زیادہ جاذب نہ ہو نے والے  ایک ماڈل یعنی   تقسیم  کا طرز نظام   ترکی اور روس کے درمیان    بار آور ثابت ہو رہا ہے،  اس باہمی  تعلقات ماڈل  میں حل  کی تلاش  مشکل ہونے والے مسائل،  نسبتاً  آسان حل یا پھر مثبت   دکھائی دینے والے شعبہ جات کی جانب مائل  ہونے کا موقع  فراہم  نہیں کرتے ۔

نتیجتاً روس،  سفارتی   نظریات کے انتہائی طاقتور ہونےو الی ایک ریاست ہے۔یہ چھوٹی اور  بڑی ریاستوں کے ساتھ سرکاری  تعلقات پر مہارت رکھتا ہے تا ہم  بیک وقت  بعض اوقات انتہائی  سخت  رد عمل کا بھی مظاہرہ کرنے والا ایک ملک ہے۔ لہذا   اس طرح کے ایک  ملک  سے متعلق  پالیسیوں کو وضع کرتے وقت، توازن  اور کئی  پہلوؤں پر مبنی کسی سیاسی  پیراڈائیم کی ضرورت   ہوتی ہے۔ کیونکہ  توازن بگڑنے کی صورت میں  روس ،  وضع کردہ اپنے کھیل  کے تصور کو اپنے حق میں اور اپنے اتحادی کے خلاف استعمال کرنے میں  تردد کا مظاہرہ  نہیں  کرے گا۔



متعللقہ خبریں