حالات کے آئینے میں 09

صدر رجب طیب ایردوان کا العربیہ ٹیلی ویژن سے خصوصی انٹرویو

680762
حالات کے آئینے میں 09

میزبان: ہمارے   آج کے مہمان  صدر ترکی  جناب  رجب طیب ایردوان  ہیں،  ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ،  العربیہ  ٹیلی ویژن کے لیے  وقت   نکالنے  پر ہم  آپ کے دلی   مشکور ہیں۔

میزبان : جناب عالی   آپ  بحرین، سعودی عرب   اور قطر پر  مبنی  خلیجی  ملکوں  کے  دورے پر نکلے ہیں، ان دوروں کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ کیا    اس کے  دور رس نتائج سامنے آئینگے؟

صدر ایردوان:  بحرین ، سعودی عرب  اور قطر    پر محیط  ہمارے یہ دورے  بلا شبہہ   ہمارے دوست ممالک کے ساتھ     موجود ہ تعلقات  کو بلند   ترین سطح تک   لیجانے کا  مقصد  رکھتے  ہیں۔ علاوہ ازیں  مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون   کے قیام    کا  ارادہ  بھی شامل ہے۔ ہمیں  یقین ہے کہ  یہ دورے  کافی   فائدہ مند ثابت رہیں  گے۔ میرے  دوروں  کے پہلے پڑاو  بحرین         کا دورہ  انتہائی     درجے          اچھا  رہا۔  اسوقت  ہم سعودی عرب میں ہیں،  یہاں پر بھی ہمارے مذاکرات   سے   دور رس نتائج    سامنے   آرہے ہیں۔  ہم یہاں سے  قطر   جائیں  گے اور  اس طرح خلیجی ملکوں کے دورے  پایہ تکمیل کو پہنچیں  گے۔

میزبان : داعش کے  بعض  حلقوں کی جانب سے    تشکیل   دیے  جانا والا ایک ڈھانچہ ہونے  کا  کہا   جاتا  ہے، صدر   رجب طیب ایردوان  داعش   کے حوالے سے   کس قسم کے نظریات  رکھتے ہیں،  کیا واقعی  میں داعش بعض مملکتوں  کی بذات خود       کوششوں   کا   نتیجہ ہے؟

صدر ایردوان :  ہمیں  ایک معاملے کا تعین   کرنا ہو گا۔  یہ   ایک  دہشت گرد تنظیم ہے جس کا  دین اسلام  سے      ہر گز کوئی تعلق  نہیں ہے۔ میں نے  القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے    منظر  عام پر آنے کے وقت  ان تمام  تنظیموں کو  دہشت گرد   کے طور پر  بیان کیا تھا اور ہمیشہ  اس بات کا دعوی کیا  ہے کہ   یہ وحشیانہ اقدامات   کرنے والی   دہشت گرد تنظیمیں  ہیں جن کا  دین اسلام  سے  دور  کا بھی  واسطہ نہیں ہے۔  داعش نے   لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا قتل کیا ہے، ان کے مال و اسباب کو لوٹا ہے۔اس نے اپنی  طاقت   کو ثابت کرنے  کے لیے  دیگر دہشت گرد تنظیموں  کو   خطے  کی  جانب     دھکیلا ہے۔ جیسا کہ   ہر کس   جانتا ہے کہ  القاعدہ ایک   دہشت گرد تنظیم تھی،  داعش  بھی   ایسی   ہی ہے۔  یہ   چیز  اس طرح جاری نہیں  رہ سکتی۔  کیونکہ یہ انسانوں  پر   ظلم  و ستم کے پہاڑ   لاد رہی ہے، یہ  مظالم اس  کا خاتمہ   کریں  گے۔ شام میں  یہ  اب یہ اپنی آخری سانسیں  لے رہی ہے،  یہ  اپنی مزاحمت کو مزید  جاری نہیں  رکھ سکتی۔   ہم اس تنظیم کے خلاف   نبرد آزما ہونے میں پر عزم ہیں۔ مجھے  یقین  ہے کہ اتحادی قوتیں ،   علاوہ ازیں سعودی عرب سمیت   خطے کے ممالک  بھی   اس    پر  اٹل ہیں۔  اگر ہم  خطے میں موجود   دہشت گرد تنظیموں   کے  خلاف مشترکہ  جدوجہد و جنگ نہیں کریں  گے    تو  دیگر علاقوں میں ہمارے ملک  میں اور دیگر  خلیجی ملکوں     میں بھی   یہ  ہمارے سر پر بلا بن   جائینگی۔    ہم نے ترکی  میں دہشت گرد تنظیم کے خلاف   وسیع پیمانے  کا آپریشن  شروع کر رکھا ہے اور  اس سے تعلق  ہونے والے افراد    کو  زیر حراست لینے کا عمل شروع ہو چکا ہے،  ہم نے  القاعدہ      میں   40 ہزار   کارکنان  کی شمولیت کی راہ میں  رکاوٹیں     پیدا کی ہیں ۔   ان دوروں پر روانگی سے قبل  ترک حفاظتی قوتوں نے ایک    ہزار کے قریب داعش کے کارندوں  کی گرفتاریاں     عمل میں  لائی ہیں۔ اگر   ہم   نے دہشت گرد  ی کے خلاف جنگ کو  پختہ  طریقے سے  جاری  نہ رکھا تو  پھر    مطلوبہ   نتائج حاصل کرنا    نا ممکن بن جائیگا۔ اسی طرح    ہم شامی عوام کے   مطالبات و  خوابوں کو  شرمندہ تعبیر  نہیں  کر پائیں  گے۔ ہمیں  عوام کی تمناوں اور خواہشات  کو مذہب پرستی  سے    پرہیز کرتے ہوئے پورا کرنے  کی کوششیں صرف کرنی چاہییں۔

میزبان :   ناکام بغاوت   کے  بعد  ترکی نے  ایران اور روس  کے ساتھ قربت قائم کی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ آپ کے تعلقات   معمول پر آرہے ہیں۔  کیا یہ اقدامات  عرب مملکتوں کے لیے کسی پیغام  کی    ماہیت   رکھتے ہیں؟

صدر ایردوان : اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ ہماری بہادر عوام نے    ڈٹ کر   مقابلہ کرتے ہوئے    بغاوت کی کوشش کو  ناکام   بنانے میں کامیابی حاصل کی،  اس  دوران  ہم نے 248 جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہمیں اچانک ایک  دہشت گرد تنظیم   کا سامنا  کرنا پڑا۔ یہ   دہشت   گرد  تنظیم  40  برسوں سے    گات لگائے    بیٹھی ہوئی تھی  اور اس نے اپنا گھناونا چہرہ دکھایا۔   اس    دہشت گرد تنظیم    کا سرغنہ امریکہ     جاتے ہوئے وہاں سے    حکم دے رہا ہے۔  مذکورہ تنظیم  تعلیم، انجمنوں ، تجارت اور   دیگر  طریقوں سے   170  ملکوں میں   اپنی  سرگرمیاں  کر رہی ہے۔  اس کے  پاس  بڑی رقوم  موجود ہیں اور  اس کے  بعض    عناصر سعودی عرب میں بھی موجود تھے۔  اللہ  کا شکرہے کہ ہمارے سعودی   بھائیوں نے    اس  دہشت گرد تنظیم کے خلاف لازمی اقدامات  اٹھائے ہیں۔  اب  فیتو   دیگر ملکوں میں   اپنے پاوں جمانے اور    وہاں پر   اپنے اثر رسوخ کو مزید   بڑھانے     میں  نبرد آزما ہے۔ عرب بھائیوں کو اس کے خلاف  بڑا محتاط رہنا ہو گا۔

تنظیم اپنے اعمال کو خاصکر  شعبہ تعلیم اور اعلی عہدوں پر اپنے  آدمیوں کو متعین کرتے ہوئے پورا کرتی ہے۔  ترکی میں انہوں نے ایسا ہی کیا۔  اس کو امریکہ میں  سر گرم عمل  چارٹر اسکولوں سے 500 ملین ڈالر کی آمدنی  حاصل ہوتی ہے۔ ان کو حکومتی تعاون  حاصل ہے تو  یہ نجی اسکولوں کی  شکل میں سر گرم عمل ہیں۔  ہم نے  تنظیم کے مالی وسائل کو بند کر دیا ، جس پر اس نے ہمارے خلاف  محاذ  آرئی کی۔  کیونکہ  یہ  تعلیمی  اداروں کی وساطت سے بلند  سطح پر  رقوم  کی   منتقلی  میں  محو تھی ۔  ہم نے اس سے وابستہ اداروں  کو بند کرتے ہوئے  ان پر مہر لگا دی ہے۔  اللہ کریم کی اجازت سے ہم  خلیجی ملکوں کے ساتھ تعاون  کی بدولت  اس  معاملے میں مزید  کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔   ترکی اسلامی تعاون تنظیم کی  عبوری صدارت     سنبھالے ہوئے ہے۔  جبکہ بحرین خلیجی   تعاون کونسل  کا موجودہ   صدر ملک ہے۔   ان مواقع کو   بروئے کار لاتے ہوئے   دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں   ایک اچھی سطح تک پہنچ  سکتے ہیں۔ اگر ہم اس  میں سرخرو ہوتے ہیں تو پھر ہمارا خطہ ایک  با حفاظت علاقہ بن جائیگا۔

میزبان : عربوں کی اکثریت  اسلام و   سیکولرزم  کو بیک  وقت        جاری رکھنے سے قاصر ہے۔  آپ   نے  اس  پر   عمل درآمد میں  کس طرح         کامیابی حاصل کی ہے؟

صدر ایردوان :   دین اسلام و  سیکولرزم کے درمیان  تعلق   قائم کرنے کی  وجہ  کو   عالم اسلام  کے   ابھی  تک نا  سمجھ سکنے پر مجھے   حیرت ہوتی ہے۔   ہم نے اپنی  سیاسی جماعت کا منشور قائم کیا، سیکورلزم  کی بھی تشریح کی۔  جب مرسی انتظامیہ   بر سر اقتدار آئی تھی تو اسوقت بھی   نے مصر کا دورہ کرتے ہوئے ان عوامل کو زیر لب لایا تھا۔  وہاں پر میں   دین اسلام  کے    دہشت گردی سے  تعلق    کے   حوالے سے  روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔   سیکولرزم حکومت  کے  لیے ہوتا ہے، نا کہ عوام   کے لیے۔  یہ ایک  اہم نکتہ   ہے کہ  سیکولر  حکومت  تمام تر عقائد    سے رواداری کا  مظاہرہ   کرتی ہے۔  اسے ملک میں موجود تمام تر مذاہب اور فرقوں سے مساوی  فاصلہ رکھنا لازمی  ہوتا ہے۔  یہ  نظریہ دین اسلام کے بر خلاف نہیں۔  تا ہم بعض  حلقے اس معاملے کو کسی دوسری جانب کھینچنے کے درپے ہیں۔    ماضی میں ہم نے سیکولزم        کے دین کے دشمن  یا پھر  لادین ہونے    کا مشاہدہ کیا تھا۔  ہم نے اس   چیز  کے خلاف  آواز اٹھاتے ہوئے اس کی نفی کی  ہے۔  سیکورلزم  مملکت کے  تمام تر  عقائد و مذاہب کو تحفظ میں  لینے کا مفہوم  رکھتا ہے۔    ہمارے ملک میں سیکولرزم انہی اصولوں کے ساتھ   لاگو ہے۔

میزبان :  کیا آپ ہمارے   ناظرین  کے   لیے   سیکولرزم  کی تشریح کریں  گے؟

صدر  ایردوان :  اوپر بیان کردہ تفصیلات  ان  کے لیے  بھی لاگو ہوتی ہیں۔ کیونکہ   ہم سیکولرزم کو دین  کے دشمن کی نظر سے نہیں  دیکھتے،   انسان  سیکولر نہیں ہوتے  چونکہ یہ ایک  مذہب  نہیں ہے، محض حکومت سیکولر  ہوتی ہے۔ یہ تمام تر مذاہب  اور  فرقوں کی ضمانت  ہے۔ یہ تمام  تر   مذاہب سے وابستہ   عوام  کو   اپنے اپنے مذہبی  فریضوں کو  آزادانہ طور پر ادا کرنے   کا موقع فراہم   کرتا ہے۔ یہ محض   لا دین کے لیے نہیں۔  اس کو دینداروں کے دشمن کی نظر سے دیکھنا بھی غلط    ہو گا۔   میری قائم کردہ سیاسی جماعت بھی اسی منشور پر کار بند ہے۔



متعللقہ خبریں