ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 06

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 06

670919
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 06

 

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 06

سامعین  ترکی ،روس اور ایران کی   زیر نگرانی  قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ  میں ہونے والے شام امن مذاکرات مثبت ماحول میں اختتام پذیر ہوئے  ۔آج کے اس پروگرام میں  اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا آستانہ مذاکرات اور  شام کے بحران کے بارے جائزہ  پیش خدمت ہے ۔

قزاقستان کے دارلحکومت آستانہ میں ترکی، روس اور ایران  کی زیر نگرانی 23 جنوری 2017 کو شروع ہونے والے شام امن مذاکرات24 جنوری کو انتہائی خوشگوار ماحول میں  اختتام پذیر ہوئے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اجلاس تین ضمانتی ممالک ترکی، ایران اور روس کے وزراء خارجہ کیطرف سے 20 دسمبر 2016 کو ماسکو میں دئیے گئے مشترکہ بیانات  کے نتیجے میں منعقد ہوا ہے۔در اصل آستانہ مذاکرات ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور روس کے صدر ولادیمر پوتن کے دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے عزم کا ٹھوس ثبوت ہیں  اور ان مذاکرات میں  قابل ستائش کامیابی  حاصل ہوئی ہے ۔  فائر بندی کے مستقبل اور سیاسی عمل میں تبدیلی کے لیے ایردوان اور پوتن کے عزم کی ضرورت تھی ۔

حقیقت یہ  ہے کہ طرفین کو آستانہ مذاکرات  کی کامیابی سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں تھیں ۔ آستانہ مذاکرات کا مقصد 30 دسمبر 2016 کو ہونے والی فائر بندی کو پائیدار بنانا اور  ترکی، روس اور ایران کو فائر بندی کی ضمانت کا  میکانزم کو تشکیل دینا تھا ۔ شام کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ان تین ضمانتی ممالک  کو آستانہ مذاکرات میں کامیابی کے زیادہ امکانات حاصل تھے ۔  پہلے مرحلے میں شدید متنازع مسائل کو زیر بحث نہیں لایا گیا صرف سیاسی  حل کی شرائط وضح کرنے والی فائر بندی کی طرف توجہ دی گئی ۔ داعش اور النصرا محاذ کو فائر بند ی سے باہر رکھا گیا ۔علاوہ ازیں، ترکی کی خواہش پر دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی شام میں شاخ پی وائے ڈی اور وائے پی جی کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ آستانہ مذاکرات  میں شامی ترکمینوں کی مجلس  کی سیاسی اور فوجی شاخ نے نمائندگی کی ۔

شام میں طرفین نے ابھی امن کے عمل کا آغاز ہی کیا ہے ۔  امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مذاکرات کے ایجنڈے کو واضح شکل دینے کی ضرورت ہے  لیکن حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایجنڈا ابھی تیار نہیں ہے ۔ فائر بندی  پرپوری طرح عمل درآمد کروانے اور اس کی نگرانی کرنے کے لیے ترکی، روس اور ایران نے ایک سہ رکنی میکانزم قائم کیا ہےجو فائر بندی پر عمل درآمد کے لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔مستقبل میں سیاسی موضوعات پر غور سے قبل بعض اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ طرفین کو فائر بندی کی شرائط پر پوری طرح عمل درآمد کرنے، زیر محاصرہ علاقوں میں بسنے والے تمام  شہریوں کو انسانی امداد   فراہم کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی ضرورت ہے ۔

ضمانتی ممالک آئندہ  کے عمل میں پی کے کے ،پی وائے ڈی ،وائے پی جی ،داعش اور النصرا محاذ  کو دیگر گروپوں سے جدا     رکھیں گے ۔ آستانہ مذاکرات میں  یہ تینوں دہشت گرد گروپ موجود نہیں ہیں ۔ ترکی ،ایران اور روس کے درمیان طے پانے والے ضابطہ مطابقت کی رو سے پی کے کے اور وائے پی جی کیطرف سے شام کے شمالی علاقے میں آزاد اور ڈیموکریٹک فیڈریشن  کے قیام جیسے مطالبات کو ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وائے پی جی دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی ہی شام میں سر گرم عمل شاخ ہے ۔ شامی ڈیموکریٹک قوتوں کا تقریباً 90 فیصد وائے پی جی  پر مشتمل ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے وائے پی جی  سر فہرست ہے ۔  جیسا کہ آپ کو یاد ہی ہو گا    وائے پی جی نے راکا شہر کے شمالی علاقے عبیاد جہاں ترکمین، سنّی عرب اور ان سے مختلف نظریات رکھنے والے کردی آباد ہیں پر حملے کرتے ہوئے ہزاروں انسانوں کو ہجرت پر مجبور کیا تھا  ۔اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے  وائے پی جی اور پی وائے ڈی کو فوری طور پر فرات کے مشرقی علاقے کی جانب پس قدمی کی ضرورت ہے ۔وائے پی جی نے انسانی حقوق کی عالمی عدالت اور جنیوا معاہدے میں شہریوں سے متعلق شقوں کی پامالی کی خصوصیت کے حامل انسانی جرائم سر زد کیے ہیں جن کا  عالمی برادری کو اب خاموش تماشا نہیں دیکھنا چاہئیے اور اس تنظیم کیخلاف اب موثر اقدامات کرنے  کا وقت آ گیا ہے ۔

شامی ترکمینوں کا اولین ہدف شام کے مستقبل میں قانونی حیثیت حاصل کرنا ہے ۔  1921 میں انقرہ معاہدے، 1923 میں لوزان معاہدے اور 1939 میں ترکی اور فرانس کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں شام کے ترکمینوں  کی حیثیت واضح نہیں کی گئی تھی  ۔ اس صورتحال کا اس دور میں اقلیتوں سے متعلق نظریات  کے مذہبی بنیاد پر منحصر ہونے اور شامی ترکمینوں  کی اکثریت کے مسلمان  ملک کی سرحد کے اندر ہونے سے تعلق پایا جاتا ہے ۔ شامی ترکمین براہ راست قانونی حیثیت کے مالک نہیں ہیں ۔  اس ہدف کو پانے کے لیے انھیں شام کے ایک علیحدہ ایکٹر کی حیثیت سے  سامنے آتے ہوئے شام امن مذاکرات میں حصہ لینے کی ضرورت ہے ۔اگر وہ اپنے ہدف کو پانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ اپنے حقوق کو  بھی پا سکیں گے  ۔

  قانونی حیثیت کے حصول کے لیے شام میں قدیم وجود  کے ثبوت کے طور پر  سلطنت عثمانیہ کے علاوہ فرانس کے نو آبادیاتی دور کے ریکارڈز بھی ترکمینوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ۔  متعلقہ ریکارڈ میں ترکمینوں سے متعلق دستاویزات  کا جائزہ لینے  ،انھیں شائع کرنے اور عالمی رائے عامہ کو  ان سے آگاہی  سے متعلقہ منصوبہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔

شامی ترکمینوں کے بارے میں اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کا طویل عرصے میں مفادات حاصل کرنے کا دارو مدار قانونی حیثیت سے ہے ۔ قانونی حیثیت کے معاملے میں 2014 میں یوکرین میں کریمیا تاتار ترکوں کیطرف سے جیتے جانے والے قانون حق " مقامی عوامی حیثیت  کو مثال کے طور پر دکھایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح سربیا کے خود مختار علاقے کوسوو کی حیثیت مغربی تھریس کے ترکوں کی حیثیت اور ترکی میں غیر مسلموں کی حیثیت کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ قانونی حیثیت ملنے سے ترکمین اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آستانہ مذاکرات شام کے بحران کو حل کرنے کی جانب اٹھایا جانے والا چھوٹا مگر اہم اور کامیاب قدم  کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن یہ                             نہیں کہا جا سکتا کہ آستانہ مذاکرات کے بعد شام کے سیاسی حل کے قریب پہنچا جا سکے گا   کیونکہ طرفین کے درمیان اصل متنازع معاملات کو  سیاسی مذاکرات کے دوران ایجنڈے میں لایا جائے گا ۔



متعللقہ خبریں