ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 05

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 05

664200
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 05

 آستانہ اور جنیوا مذاکراتی عمل کے دائرہ کار میں شام سے متعلقہ تمام ایکٹرز  اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کر  تے ہوئے اپنی حکمت عملی کونئے سرے سے وضح کر رہے ہیں ۔ آج کے اس پروگرام میں ہم اس موضوع کا جائزہ لیں گے کہ  شامی ترکمینوں  کوکس قسم کی  حکمت عملی  اپنانے کی ضرورت ہے ۔ ۔ اس بارے میں اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا جائزہ  پیش خدمت ہے ۔

2016 میں جنیوا اور ویانا میں شروع ہونے والے مذاکرات سے شام کے مسئلے کے حل ہونے کی  جوامیدیں پیدا ہو گئی تھیں وہ بر آور ثابت نہ ہو سکیں ۔  2017 میں ترکی اور روس کی کوششوں سے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں امن مذاکرات منعقد ہوئے ۔اجلاس میں مذاکرات کو جنیوا میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔  آستانہ مذاکرات میں  شامی ترکمینوں کی نمائندہ شامی ترکمین مجلس کے اراکین  بھی  موجود تھے ۔

شام کے علاقے میں  بسنے والی قدیم اقوام میں ترکمین بھی شامل ہیں وہ ساتویں صدر ی سے اس علاقے  میں  دیگر اقوام کیساتھ مل جل کر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ترکمین شام کے حلب ،لازکیے، ادلیب، حمس، ہما ،تارتوس، راکا، دیرہ ،دمشق اور گولان کے علاقوں میں  پھیلے ہوئے ہیں ۔  وہ   کئی صدیوں سے بسنے والے اپنے علاقے  اور اپنے تشخص کے تحفظ کی جدو جہد کر رہے ہیں ۔ ترکمینوں نے شامی انتظامیہ کے مظالم کیخلاف   2011 میں عوامی مزاحمت شروع کی  تھی ۔ اسد انتظامیہ کے جنگی طیاروں نے 2011  کے بعد حلب کےعلاقے بایر بوجک میں ترکمینوں کے رہائشی مراکز پر کئی بار بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب ترکمین ہلاک ہو گئے ۔  ترکمینوں   کے مطابق   اسوقت ہزاروں ترکمین لاپتہ اور زیر حراست ہیں ۔

 ترکمین 2011 سے دہشت گر د تنظیم داعش ،پی کے کے اور وائے پی جی اور اسد انتظامیہ کے حملوں کا مقابلہ کر رہے  ہیں ۔  وہ کئی صدیوں سے شامی عوام سے جدا ایک قوم  کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔  شام میں ترکی زبان بولنے والے تقریباً ڈیڑھ میلین ترکمین موجود ہیں اور   ترکی زبان بھول جانے والے ترکمینوں کیساتھ ملا کر ترکمینوں کی آبادی تین میلین کے قریب ہے۔ ترکمینوں کے وجود کی  سلطنت عثمانیہ کے ریکارڈ اور فرانس  کے نو آبادیاتی انتظامیہ کے ریکارڈ سے بھی تصدیق  ہو تی ہے ۔شام میں مقیم ترکمینوں کی حقوق کی کافی عرصے سے پامالیاں کی جا رہی ہیں   اور ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے  جس پر عالمی برادری  کو  بھی رد عمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے ۔

 ترکمینوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے ہدف کو پانے کے لیے شامی ترکمینوں سے متعلق عالمگیریت اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے ۔ عالمی برادری کو سب سے پہلے  یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شام میں دیگر اقوام کے علاوہ ترکمین بھی آباد ہیں  کیونکہ شام میں  ترکمینوں سے امتیازی سلوک برتتے ہوئے ان  کے انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں اور ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔وہ ثقافتی حقوق سے بھی محروم ہیں  ۔ عالمی برادری کو اس المناک صورتحال سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ترکمینوں کی صورتحال کو عالمی قوانین کے پیش نظرسے بھی دیکھنے میں فائدہ ہو گا  ۔  1921 میں انقرہ معاہدے، 1923 میں لوزان معاہدے اور 1939 میں ترکی اور فرانس کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں شام کے ترکمینوں  کی حیثیت واضح نہیں کی گئی ۔ اس صورتحال کا اس دور میں اقلیتوں سے متعلق نظریات  کے مذہبی بنیاد پر منحصر ہونے اور شامی ترکمینوں  کی اکثریت کے مسلمان  ملک کی سرحد کے اندر ہونے سے تعلق پایا جاتا ہے ۔ شامی ترکمین براہ راست قانونی حیثیت کے مالک نہیں ہیں ۔  ترکمینوں کو مستقبل   کا  اولین ہدف قانونی حیثیت حاصل کرنا ہوگا ۔  اس ہدف کو پانے کے لیے انھیں شام کے ایک علیحدہ ایکٹر کی حیثیت سے  سامنے آتے ہوئے شام امن مذاکرات میں حصہ لینے کی ضرورت ہے ۔اگر وہ اپنے ہدف کو پانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ اپنے حقوق کو پا سکیں گے  ۔

 قلیل مدت میں عالمی برادری پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکمین ڈیموکریٹک، سیکولر ،ماڈرن ،مغربی اقدار سے اختلاف نہ رکھنے والی  اور علاقے کے تمام نسلی گروپوں کیساتھ  اتحاد و یکجہتی  کے جذبات رکھنے والی قوم  ہیں ۔  وہ شام کے دیگر نسلی گروپوں سے زیادہ مغرب نوا زاور سیکولر ہیں اور اس صورتحال کیوجہ سے عالم مغرب کی ان میں دلچسپی بڑھے گی ۔مغربی ممالک کی حمایت سے  ترکمینوں کے صوفی اسلام نظریے کے  حامی لیڈر اس مرحلے میں منظر عام پر آ سکتے ہیں ۔ان حالات میں  ترکمین داعش جیسے انتہا پسندعناصر  کیساتھ  ہر شعبے میں  جدوجہد  کرتے ہوئےاپنے نظریات کا ثمرہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

  قانونی حیثیت کے حصول کے لیے شام میں قدیم وجود  کے ثبوت کے طور پر  سلطنت عثمانیہ کے علاوہ فرانس کے نو آبادیاتی دور کے ریکارڈز بھی ترکمینوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ۔  متعلقہ ریکارڈ میں ترکمینوں سے متعلق دستاویزات  کا جائزہ لینے  ،انھیں شائع کرنے اور عالمی رائے عامہ کو  ان سے آگاہی  سے متعلقہ منصوبہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔

شامی ترکمینوں کے بارے میں اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کا طویل عرصے میں مفادات حاصل کرنے کا دارو مدار قانونی حیثیت سے ہے ۔ قانونی حیثیت کے معاملے میں 2014 میں یوکرین میں کریمیا تاتار ترکوں کیطرف سے جیتے جانے والے قانون حق " مقامی عوامی حیثیت  کو مثال کے طور پر دکھایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح سربیا کے خود مختار علاقے کوسوو کی حیثیت مغربی تھریس کے ترکوں کی حیثیت اور ترکی میں غیر مسلموں کی حیثیت کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ قانونی حیثیت ملنے سے ترکمین اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اسوقت بد قسمتی سے  شام میں ترکمینوں  کو قانونی مقام حاصل نہیں ہے ۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ترکی کے سوا کسی  بھی ملک کو ان کی پرواہ نہیں ہو گی ۔ حالات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں ترکمینوں کا اولین ہدف اسٹیٹس کی دستاویز حاصل  کرنا ہونا چاہئیے کیونکہ یہ دستاویز مستقبل میں ان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی ۔



متعللقہ خبریں