ترکی کے نقطہ نظر سے۔ 01

دوسری عالمی جنگ کے بعد یالتا سمجھوتے کے ساتھ قائم ہونے والا ورلڈ آرڈر اصل میں نصف صدی کو پورا کرنے سے پہلے ہی ناکارہ ہو گیا

649225
ترکی کے نقطہ نظر سے۔ 01

پروگرام " ترکی کے نقطہ نظر سے" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یالتا سمجھوتے کے ساتھ قائم ہونے والا ورلڈ آرڈر اصل میں نصف صدی کو پورا کرنے سے پہلے ہی ناکارہ ہو گیا تھا ۔ اس وقت یہ ورلڈ آرڈر ایکسٹینشن کے کھیل کھیل رہا ہے  اور لاکھوں انسانوں کے لئے ایک مہلک خطرہ بنا ہوا ہے۔

 

سال 1945 میں یالتا سمجھوتے سے قائم ہونے والے ورلڈ آرڈر کو سوویت لیڈر میخائل گورباچوف کی پریسٹروکیا پالیسیوں  کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔ اس قبل از وقت اضمحلال  نے موجودہ عالمی نظام  کے کرتا دھرتا اور  اقوام متحدہ میں ویٹو کے اختیار کے حامل 5 ممالک کو  اچانک آ دبوچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ روس خود بھی اقوام متحدہ میں ویٹو کا حق رکھنے والا رکن ہے اور وہ خود بھی پیسٹروکیا  پالیسیوں کے لئے تیار نہیں تھا۔ پیسٹروکیا کے ساتھ ایک لمحے میں خلاء میں گر  جانے والے  مضبوط اقتصادیات اور دفاعی صنعت  کے حامل ان پانچ ممالک  نے پرانی راکھ سے نیا سیمرغ تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کا منتظم امریکہ  تھا اس کے باوجود کہ امریکہ کی تاریخ ابھی صرف 200 سالہ تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس ملک کا ابھی بورجوازی یعنی درمیانہ طبقہ بھی موجود نہیں تھا کیونکہ درمیانے طبقے کی تشکیل کے لئے کم از کم 8 نسلوں کے گزرنے یعنی 400 سال گزرنے کی ضرورت تھی۔

 

نہ ہی ثقافت اور نہ ہی سماجی اعتبار سے ملک کے پاس کوئی بورجوازی اثاثہ موجود نہیں تھا۔ یہاں ، اسلحے کے تاجروں، نقل مکانی کرکے آنے والے کنبوں ، وسیع اراضی کے مالک دیہاتیوں اور غیر قانونی خارجہ اقتصادی  چالوں کی مدد سے سرمایہ اکٹھا کرنے والے انسانوں کی حکومتی حکمت عملی حاکم تھی۔

 

اس نئے ورلڈ آرڈر کو کمیونٹیوں میں نافذ کرنے کے لئے فوکویاما اور ہنٹنگ ٹن جیسے موئثر  ہتھیاروں کا استعمال کر کے عوام پر ایک اداراکی آپریشن کیا گیا۔ اس کے بعد نئے ورلڈ آرڈر  کو بش اوّل کے دور میں  سماجی  یا مقدس   'ہیجے مونک' غلبے کی  جنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔ بش کا ٹرینٹی سلام کے ساتھ پورے میڈیا اور رائے عامہ کے سامنے عراق پر قبضے کے آپریشن کو "مقدس صلیبی جنگ" قرار دینا  1945 میں یالتا سمجھوتے کی طرح اس بات کو سامنے لے آیا کہ اس نئے ورلڈ آرڈر کی زندگی کا منبع کیا ہو گا ۔ اصل میں ماگنا کارٹا  کے بعد سے مستقل تبدیل ہوتی اور وسعت پاتی  یورپی اقدار  کو، جارج ہربرٹ والکر بش  کے 1991 میں عراق پر قبضے کے موقع پر ادا کردہ ان الفاظ سے کہ "میں مقدس صلیبی جنگوں کا آغاز کروا رہا ہوں" شدید جھٹکا لگا۔ ان ادوار میں یورپ کا ضمیر ابھی کچھ زندہ تھا ۔مفکرین، مصنفین، یونیورسٹی حلقے اس قبضے کے خلاف سنجیدہ سطح پر آواز بلند کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر ہسپانوی فلاسفر سنٹیاگو آلبا ریکو کی اس نظام کے خلاف رقم  کردہ تحریروں نے تھیوری کے لحاظ سے اس نئے ورلڈ آرڈر کی بنیادوں میں ڈائنا میٹ رکھ دیا۔ ریکو نے ورلڈ آرڈر کے خالقوں کی تحریروں اور مقالوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے  اس نظام کے اوّلین دنوں میں ہی  یہ کہہ دیا تھا کہ "یہ نیا ورلڈ آرڈر ایمپیریلزم  کی لوٹ بازاری اور خون چوسنے والا ہے۔

 

اصل میں کمیونسٹ حکومتوں کے ٹوٹنے کے بعد  جو بات حیرت انگیز تھی وہ یہ کہ داخلی جھڑپوں، جنگوں، بحرانوں اور افراتفری  کی زد میں آنے والے سب علاقے توانائی کے وسیع ذرائع  اور بڑے پیمانے پر تجارتی صلاحیت کے حامل علاقے تھے۔ افغانستان سے لے کر الجزائر تک پورے علاقے میں  دہشت گردی اور تشدد حقیقی معنوں میں ہاتھوں میں ہاتھ لئے گھومنا شروع ہو گیا۔ روزنامہ دی انڈی پینڈنٹ کی 6 دسمبر 1993 کی ایک خبر کافی حد تک اہمیت کی حامل ہے۔ خبر میں اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو امن کے راہی لکھا  گیاہے۔ اس وقت بالکل1980 میں صدام حسین کو ایران کے خلاف جنگ میں دلیر جنگجو کے طور پر دکھائے جانے کی طرح  اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو ایک عیسی کی طرح دکھایا جا رہا تھا۔  کچھ عرصے کے بعد مغربی تہذیبوں کے تعاون کے حامل عیسی  اور اس کے دلیر ساتھیوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا اس کے بعد بش نے ٹرینٹی سلام کے بعد علاقے کو آگ کے گولے میں تبدیل کر دینا تھا۔

 

انہی سالوں میں الجزائر میں FIS نامی  اور اسلام کو اپنے لئے ایک ماسک کے طور پر استعمال کرنے والی خونی دہشت گرد تنظیم سامنے آئی۔ لیکن جیسے ہی امریکی کمپنیوں نے الجزائر کے ساتھ انرجی کے سمجھوتے کر لئے یک لخت FIS کی طرف سے جاری قتل عاموں اور سر کاٹنے کی کاروائیوں کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

 

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بر سراقتدار  آنے والے تمام امریکی سربراہان  نے سرمایہ دار بن کر درمیانے طبقے سے محروم زیادہ فیوڈل تائثرات کے ساتھ ارد گرد کے بھوکے سرمایہ داروں کی استحصالی پالیسیوں  کو تقویت دی۔

1945 میں یالتا سمجھوتے کے ساتھ جنم لینے والے غیر منصفانہ اور ظالمانہ ورلڈ آرڈر  کی بنیادوں سے ابھرنے والا نیا ورلڈ آرڈریعنی امریکہ کا سہانا  خواب پوری دنیا کے لئے ایک ڈراونے خواب میں تبدیل ہو گیا۔ اقوام متحدہ بھی اس غیر منصفانہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے تمام اقدار کو پاوں تلے روندنے کا تائثر  دے رہی ہیں۔ ڈیموکریٹس دنیا کے آتشی گولہ بنے رہنے کے لئے تمام خفیہ اور کھلے کھیلوں کو کھیل رہے ہیں  جبکہ آزادیوں کے نام نہاد مخالف یعنی ریپبلکن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سوشیالوجی، اینٹروپولوجی  اور سیاسیات  امریکہ کی اس  متضاد صورتحال کے مقابل حقیقی معنوں میں غیر موئثر ہو چکی ہے۔ لیکن اس نظام سے زندگی حاصل کرنے والے اس نظام کے جاری رہنے کے لئے غیر اخلاقی تشدد  اور دہشت گردی  کے اقدامات  کو اصرار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کیا کہہ رہے ہیں ذرا اس طرف بھی توجہ دی جائے ۔ صدر ایردوان کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ "آج جس دہشت گردی کو آپ پال رہے ہیں وہ ایک دن آپ کی طرف ہی پلٹ جائے گی"۔ اور اس وقت دیکھا جائے  تو دہشت گردی کا خطرہ پورے مغرب کو اپنے اثر میں لئے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے باوجود نیو ورلڈ آرڈ کے جاری رہنے پر اصرار دنیا کو اپنے لپیٹ میں لینے والی آگ پر پیٹرول چھڑکنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

اس وقت ہر کوئی اس تجسس میں ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈولنڈ ٹرمپ کیا اس نظام کے دوام پر اصرار کرتے ہیں یا نہیں۔



متعللقہ خبریں