ابراہیم قالن کے قلم سے یورپ کے پیچیدہ مسائل پر ایک جائزہ

ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم قالن نے یورپ کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ترکی اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر نکتہ چینی کی ہے

624924
ابراہیم قالن کے قلم سے یورپ کے پیچیدہ مسائل پر ایک جائزہ

"آئندہ  برس  منعقد ہونے  والے  کئی بلدیاتی و  قومی انتخابات  کے ساتھ یورپی سیاست   کے اپنے آپ پر شبہے   میں  مزید گہرائی    آئی  گی اور  ایسا لگ رہا ہے کہ اس چیز سے     قدیم    خطے بھر   میں  عوام پسند،   مہاجر مخالف ،  اسلام فوبیا اور غیر ملکی دشمنی   کو مزید شہہ  ملے گی۔"

یورپ کو  عالمی   عدم   تحفظ،  علاقائی  افراتفری اور مہاجرین  کو  نظر انداز  کرنے   والے ایک ماحول میں  ضدی اور    ممکنہ  طور پر   تباہ کن  کسی سیاسی    پاپولزم  اور  موقع پرستی  کی لہر کا سامنا ہے۔ یہ   روش   بریکسٹ   رائے  دہی کے    بعد  یورپی    افکار  کے لیے خطرہ تشکیل دے رہی ہے اور یورپی یونین کو  کمزور بنانے  والے خطرات     کو ظہور پذیر کر رہی  ہے۔ اور اب ایسا  محسوس  ہو رہا ہے کہ   آئندہ   برس منعقد  ہونے والے     بلدیاتی و  قومی انتخابات   کے    ساتھ   یورپ میں اس کی سیاسی  پالیسیوں پر  شک و شبہات میں  گہرائی   پیدا ہو گی اور  خطے میں  پاپولزم،  نسل پرستی ، مہاجرین مخالف  اور  غیر ملکی دشمنی جیسے نظریات   کو مزید  ہوا     ملے گی۔  اگر یورپ کو اپنے گھر میں  ایک طاقتور اور  سالمیت      کی حامل دنیا  میں      اپنے   با اثر  مقام کو برقرار رکھنا ہے تو   پھر  یورپی سیاسی   سربراہان کو  عقل مندانہ   جائزات لینے   ہوں  گے۔

نئی نسل  پرستی اور سیاسی مواقع   کے بارے میں  سنجیدہ  خدشات    رکھنے والوں کو   آسڑوی   صدارتی انتخابات  میں الیگزنڈر وانڈر  بیلین  کی انتہا ئی دائیں بازو کے نظریات کے  حامل   نوربرٹ  ہوفر  کے خلاف  فتح     سے   سکھ کا سانس آیا ہے۔  ہوفر نے  ترکوں اور مسلمانوں کے بارے میں  کھلم کھلا   نسل  پرست    نظریات کو   نہ صرف    شیئر کیا بلکہ   یورپی  یونین     پر انگلی  اٹھاتے ہوئے   اپنی انتخابی  مہم کے آغاز  پر     بریکسٹ کی طرح کے      کسی ریفرنڈم     کے انعقاد کا مطالبہ کیا۔   اگر یہ   شخص  منتخب ہو جاتا تو   اس نے  یورپ کا   پہلا   انتہائی دائیں  بازو کے کٹر نظریات اور  اسلامی فوبیا    کے   احساسات کوٹ کو ٹ کر بھرے ہونے والا ایک صدر   بننا تھا۔   ہوفر کو  انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو بھی   اس  کے    دفاع کردہ اور  کافی حد تک پذیرائی ملنے والے  افکار و نظریے  کا وجود     تاحال    پایا جاتا ہے۔  یہ محض ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کی مخالفت ہی نہیں کرتے بلکہ   بیک  انہوں نے ترکوں  اور مسلمانوں کی آسڑیا میں آمد کی بھی    مخالف   بھی کرتے ہیں۔   ان  کے سیاسی    مؤقف  نے  اب  کئی ایک یورپی ملکوں میں  مقبولیت حاصل کر لی ہے۔  دریں اثناء  موجودہ آسڑوی حکومت   بھی ترک مخالف   متنازعہ موقف پر کار بند ہے۔

آسڑوی انتخابی نتائج نے  آسڑیا اور یورپ کے  مسائل کا مسلمانوں  ،   ترکوں اور مہاجرین کو مورد الزام ٹہرانا  ہمیشہ         انتخابات میں  ووٹوں میں اضافے میں معاون ثابت ہوتا   ہے  کو  غلط  ثابت کر دکھایا ہے۔  یورپ میں کم  ازکم   بعض لوگ حقائق کا اندازہ کر سکتے ہیں۔   پیچیدہ مسائل کو کسی واحد   سبب سے وابستہ کرنا اور  انسانوں  کے ایک گروپ کو   قصور  وار دکھانا     صرف اور صرف قلیل المدت       فوائد  دلا سکتا ہے تو یہ     طویل مدت میں      مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے گا۔

اگر یورپ کی انتہا پسند  اور   دائیں بازو کی  جماعتوں نے  اپنے عام شہریوں     کے درمیان  بلا وجہ کے خوف  سے اپنے سیاسی مفادات کا حصول جاری رکھنے سمیت  عوام کے درمیان منافقت،نسل پرستی  اور نا امیدی   کا زہر بھرنا شروع کر دیا تو یہ ایک   معاشرتی ناسور بن کر رہ جائے گا۔

 اگلے سال  فرانس میں  ہونے والے انتخابات  اس منظر کشی کا خاکہ پیش کر رہے ہیں  جہاں  مارین لے پی کے  زیر قیادت قومی محاذ نے  گزشتہ عرصے سے اپنا عوامی حلقہ کافی وسیع کر دیا ہے  جو کہ ان انتخابات میں دیگر امیدواروں کی نیندیں اڑانے   کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

موجودہ صدر اولاند   کی طرف سے انتخابات میں  عدم شرکت  اور سوشلسٹ جماعتوں کی ناقص کارکردگی  کے  علاوہ   ریپبلیکن پارٹی  کے صدارتی امیدوار فرانسواں فیلون   اس انتخابی  رسہ کشی میں کیا گل کھلاتےہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔  تاثر ملتا ہے کہ ان انتخابی وعدوں میں مہاجر دشمنی، عالمگیری طاقتوں کے خلاف  مزاحمت ،ترکی اور مسلم امہ دشمنی جیسے عزائم کی کھلم کھلا  تشہیر کی جائے گی  ۔فرانس،  برطانوی عوام کی طرز پر یورپی یونین سے اخراج کا خواہاں نظر نہیں آتا  مگر  لگتا ہے کہ عرصہ دراز سے ملک میں جاری  انارکی   ،بے روزگاری اور معاشرتی عدم  رواداری جیسے مسائل فرانس کے سیاسی و سیاسی پردے پر اپنی دھاک بٹھاتے نظر آئیں گے۔

جرمنی  کا سیاسی مستقبل  بھی اگلے سال  ہونے والے عام انتخابات میں  کچھ مشابہ منظر پیش کرے گا ۔یورپ کی مضبوط ترین لیڈر  انگیلا مرکل    کی ان انتخابات میں کامیابی خواہ جتنی یقینی نظر آئے  مگر اتنا  کہنا ہوگا کہ  مہاجر   سوز سیاست  اور یورپی  معیشت   کو مستحکم رکھنے کی راہ میں حائل مسائل  کا سامنا  مرکل کو کرنا ہوگا، البتہ یہ ضرور ہے کہ  یورپ میں مہاجرین   کے بحران   کو روکنے کےلیے  مرکل نے  جتنی بھی کامیاب کوششیں کیوں نہ کی ہوں ،بلدیاتی  انتخابات میں  انہیں اس کا خمیازہ کافی بھاری ادا کرنا پڑا تھا ۔

  مزید برآں ، اطالوی  وزیراعظم ماتیو رنزی      کے  ریفرنڈم میں ناکامی پر مستعفی ہونے کی  خبر کے نتیجے میں  یورپ کے سیاسی نقشے پر عدم استحکام  کے بادل چھانے کا  امکان واضح نظر آ رہا ہے کیونکہ اطالوی سیاست جنگ عظیم دوئم سے اب تک مسلسل   سیاسی  پیچیدگیوں اور اندرونی تنازعات  میں الجھی رہی ہے جس   کا اثر یورپ   کےلیے سیاسی و اقتصادی بحران کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

یورپ کی اس ناقابل فہم سیاسی صورتحال  کا ترکی۔یورپی یونین تعلقات پر اثر انداز ہونا بہت قدرتی امر ہے۔ مستحکم روّیے  اور  تعاون کی کمی نہ صرف ترکی کی  دہشتگردی کے خلاف  جدوجہد کے  لئے نہایت زہریلا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ موجود تضادات  و اختلافات میں  بھی شدت پیدا کر رہی ہے۔ یورپ کے تحفظ کے لئے کلیدی اہمیت کے حامل ملک' ترکی' کے سکیورٹی مسائل  کو حقیقی معنوں میں   اہمیت نہ دیا جانا عدم اعتماد کے ایک گہرے  احساس کو پروان چڑھا رہا ہے۔   ناقابل یقین حد تک سست رفتاری  سے آگے بڑھنے والے اور  عام طور پر تاخیر کی نظر کئےجانے والے رکنیت  کے مذاکرات  مستقبل کے بارے میں کوئی  یقین دہانی نہیں کرواتے۔ مہاجرین کے بحران  سے موئثر اور موزوں شکل میں عہدہ براء ہونے میں یورپ کی ناکامی باہمی تعلقات میں تناو لانا جاری رکھے ہوئے ہے۔ غیر ذمہ دار سیاسی شخصیات  کا سیاسی مفادات کے لئے صدر رجب طیب ایردوان اور ترکی کو  مقابل فریق میں تبدیل کرنا کام کو آسان نہیں ہونے دے رہا۔

اس بند گلی سے نکلنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم اپنی ترجیحات کا تعین درست شکل میں کریں اور اس بات کا ادراک کر لیں کہ   ہمارے مشترکہ تحفظ اور خوشحالی کا دارومدار  مشترکہ کوشش  پر ہے۔ 

ایک ایسے وقت میں کہ جب دو طرفہ انحصار میں  اور مشترکہ مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ہم ایسے کھیلوں کے سامنے گردن جھکانے سے انکار کر سکتے ہیں کہ جو   دونوں فریقوں کے لئے مشکل اور غیر مفید حالات پیدا کر سکتے ہیں  ۔ یورپ ،  مرکزی سیاسی رو کو انتہائی  دائیں بازو کی قومیت پرستی اور نسلیت پرستی کے دباو کی بھینٹ چڑھنے سے بچا کر  اور مرکزی سیاست  کی  بنیادی اقدار کو دوبارہ سے اختیار کر کے اپنے مسائل کا حل  تلاش کر سکتا ہے۔

ترکی کے ساتھ تعلقات میں  ایک نئے صفحے کو کھولنا اس مرحلے میں نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ترکی کے ساتھ جاری شین گن ویزے کی معافی کے مرحلے  کو کسی نتیجے پر پہنچانا باہمی اشتراک کا ایک نیا ماحول پیدا کرے گا۔ یہ اصل میں  ایک ایسا حق ہے کہ جو ترک شہریوں کو بہت پہلے سے دیا جانا ضروری تھا۔ یورپی یونین کے لئے ایک اور اہم قدم مہاجرین کے بارے میں کئے گئے  وعدوں کو پورا کرنا  اور ترکی کے بوجھ کو بانٹنا ہے۔ آخر میں  جس چیز کی ضرورت ہے وہ 15 جولائی  کے حملے کے اقدام سے قبل اور اس کے بعد ترکی کو در پیش سکیورٹی مسائل کو سمجھنا ہے۔ یہ تفہیم اس مخاصمانہ سیاسی فضاء کو تبدیل کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی کہ جو اس وقت یورپ میں موجود ہے۔ سیاسی مقبولیت کے شوق میں ترکی کے لئے دشمنی کا روّیہ ترکی  سے زیادہ خود یورپ کو نقصان پہنچائے گا۔



متعللقہ خبریں