ابراہیم قالن کے قلم سے: یورپ میں ترک فوبیا اور پُر خطر مستقبل

یورپی شخصیات ہر گئے روز ایردوان اور ترکی کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی مقبولیت اور ساکھ میں بہتری لانے کے درپے رہتے ہیں

619092
ابراہیم  قالن کے قلم سے: یورپ میں ترک فوبیا  اور پُر خطر مستقبل

ایک ایسے وقت میں  جب یورپی پارلیمنٹ یورپ میں  بڑھتی ہوئی   نسل پرستی،  غیر ملکی دشمنی ، پناہ گزین گرپوں کی مخالفت،  انتہا پسندی  اور اسلامی فوبیا کی طرح کے حقیقی مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے تو  اسی دوران اس نے   ترکی کے خلاف   ایک اسکینڈل کی حیثیت رکھنے والے فیصلے پر مدستخط کیے ہیں۔  یورپ  اپنے اندورنی مسائل  ، مائیکرو   قومیت پسندی  اور brexit سلسلے  کی وجہ سے  اپنے سٹریٹجیک   نظریات کو  کو محدود کرنے   اور تعلقات کو  ختم کرنے کے درپہ  ہے ۔ یورپی    پارلیمنٹ  نے 24 نومبر  کو ترکی کے خلاف کیے جانے والے  مذاکرات کو منجمد کرنے  کے فیصلے   کے پیچھے  دراصل   ترکی کے بارے میں   موجود خوف،  قدیم مفروضات،  اور ترکی سے متعلق   سیاسی  سوچ  موجود ہے۔ اگرچہ اس فیصلےکو عملی لحاظ سے کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے  لیکن اس سے یورپ کے سیاسی نظریات کی واضح  طور پر عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے یورپ میں ترکی کے خلاف سیاسی نظریات کو بھی ہوا مل رہی ہے اور ترکی کے خلاف ان کے ذہنوں میں موجود سیاسی نظریات کو بھی ہوا مل رہی ہے۔ لیکن اس فیصلے  کے اثرات صرف ترکی پر نہیں بلکہ پورے یورپ پر محسوس کیے جائیں گے۔

یورپ میں اب صورتِ حال  یہ ہے کہ  وہاں پر ہر کوئی شخص اپنے مفاد اور اپنے اسکور کو بڑھانے کے لیے     ترکی اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان پر حملہ  نہ کرے  یا ان  کو نشانہ نہ بنائے۔  سیاستدان، صحافی، کامیڈین، فنکار اور دیگر افراد  ایردوان کو  جمہوریہ ترکی کے صدر کے طور پر نہیں بلکہ   اس شخص کو  اپنے  حملوں کا نشانہ بنانے  اور اپنی دشمنی کو اس سے نکالنے  اور اس کو اپنے سے ایک الگ تھلگ شخص کے طور پر پیش  کرتے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔

ہم نے ایردوان کے خلاف   اس قسم کی حرکات و سکنات  اور اشتعال انگیزی  کرنے کی وارداتوں کو اس سے قبل بھی دیکھا ہے  اور  وہ اس قسم   کی کاروائیوں کو آئندہ بھی جاری رکھیں گے اس بارے میں ہمیں  ان کی سوچ اور نظریات دیکھتے ہوئے واضح طور پر اندازہ  ہوجاتا ہے۔

ترک ۔جرمن ایک مسلمان خاتون ایلف زہرہ قاندیمر کہتی ہیں کہ یورپ میں   صدر رجب طیب ایردوان کے خلاف حقارت آمیز بیانات دینا روزمرہ کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ انھیں ایک دائمی دشمن کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔

یورپ میں صدر ایردوان پر منظم طریقے سے کیچڑ اچھالا جا رہا ہے ۔اس کی حالیہ مثال   جرمن جریدے دیر شپیگل کے ماہ ستمبر کے خصوصی ضمیمے  میں نظر آتی ہے  ۔ جریدے نے صفحہ اوّل پر ان کی جو تصویر شائع کی ہے اس میں انھیں سن گلاسسز پہننے والے ایک مافیا لیڈر کے طور پر دکھایا گیا ہے ۔تصویر میں وہ سلطان احمد مسجد کو دیکھ رہے ہیں جس کے دو مینارے میزائل کی شکل میں ہیں ۔    سورج کے  عکس کا  ان کی عینک کے شیشوں پر پڑنا آگ  اور ظلم   کی نشاندہی کرتا ہے۔ جریدے کی  شہ سرخی  کا پیغام تصویر  کی حقیقت کی وضاحت کرتا ہے۔ترکی اپنی آزادی سے محروم ہو رہا ہے ۔

 دیر شپیگل کا 15 جولائی کی فیتو کی ناکام بغاوت سے دو ماہ بعد شائع کی جانے والی  صفحہ اوّل کی اس تصویر کی حقیقت  قابل توجہ ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ  دیر شپیگل کو ترکی میں بغاوت کی ناکامی پر افسوس ہوا ہے۔  اگر انقلاب کامیاب رہتا تو  اسے خوشی ہوتی اور شائد وہ  انقلابی لیڈر فتح اللہ گولن کی مسکراتی ہوئی  تصویر کو اپنے  صفحہ اوّل کی زینت بناتا۔دیر شپیگل انقلاب کو ڈیموکریسی کے لیے ایک اچھی چیز کے طور پر بیان کرتا اور اعلی رپورٹنگ کی صلاحیت   کودراصل ڈیموکریسی اور فوجی انقلاب  کے درمیان کسی قسم کے تضاد  کی عدم موجودگی  کی وضاحت کے لیے استعمال کرتا ۔

یورپی پارلیمنٹ ایک طرف یورپ میں  بڑھتی ہوئی   نسل پرستی،  غیر ملکی دشمنی ، پناہ گزین کی مخالفت،  انتہا پسندی  اور اسلام فوبیا جیسےاہم مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہ اور دوسری طرف اس نے   ترکی کے خلاف   ایک اسکینڈل کی حیثیت رکھنے والے فیصلے پر دستخط کیے ہیں۔  یورپ  اپنے اندورنی مسائل  ، مائیکرو   قومیت پسندی  اور brexit سلسلے  کی وجہ سے  اپنے سٹریٹیجک   نظریات  کو محدود کرنے   اور تعلقات کو  ختم کرنے کے درپےہے ۔ یورپی    پارلیمنٹ  نے 24 نومبر  کو ترکی کے  کےساتھ  مذاکرات کو منجمد کرنے  کے فیصلے   کے پیچھے  دراصل   ترکی  سے لاحق خوف اور سیاسی  سوچ  موجود ہے ۔

تا ہم  یہ فیصلہ   واحدانہ    طور پر     ترکی   کے بارے میں  صادر کیے جانے    سے ہٹ کر     یورپ  کے سیاسی  افق       سے تعلق  رکھتا ہے۔

کوئی دن ایسا نہیں   گزرتا  جب    خطہ یورپ  میں  کوئی نہ کوئی  یورپی شخصیت     ترکی   اور   ترک صدر  رجب طیب ایردوان   کو نشانہ بناتے ہوئے    اپنے عوام کی پذیرائی حاصل کرنے کی   کوشش میں  نہ ہوا۔

سیاستدان، صحافی، کامیڈین ،  فنکار اور  دیگر افراد    ایردوان   کو   اپنے ذہنی غلبے   میں  بدل چکے   ہیں ، ایسا ہے کہ  'ایردوان'   کا لفظ  اب   جمہوریہ ترکی کا صدر ہونے والی شخصیت کی جانب اشارہ نہیں  کرتا ؛ تا ہم       اس کی بجائے   یہ  لوگ  جب کبھی بھی  مخالفت  اور کسی  کو نشانہ کا ٹھانتے ہیں  ،      یہ  اپنے آپ کو اچھا محسوس کرنے کے  لیے "دوسری " کسی  چیز کے متلاشی ہوتے ہیں  تو پھر  یہ     ان کی مدد کرنے والے  نمایاں ، غیر نمایاں   کسی نظریے کی جانب   اشارہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم نے  ا ایردوان  کے   ان پر  طاری خبط   کی  حرکتوں،  نیچا دکھانے کی   کوشش  کرنے والی تنقید کے ہمراہ    خوف کی دلالی  کرتے ہوئے  اس قسم کی اشعال انگیزی    کے  کسی نمایاں  ردعمل   کا موجب بننے کی امید      رکھے جانے کا بھی مشاہدہ  کیا ہے ،     اور       مشاہدہ   کیے  جانے کی  توقع ہونے والے    رد عمل کو بعد میں   دوبارہ ایردوان  کی ضرورت  پیش آنے والے  ہر مقام   پر ہمیشہ   اسے استعمال کیا جائیگا ۔    دوسرا   استعمال  کیا جانے والا ایک پیچیدہ   نظریہ  "ایردوان کے حمایتیوں "  کو شیطان  سے تشبیہہ دیے  جانے پر مبنی ہے۔  جیسا کہ ترک    ۔ جرمن  ایک  مسلمان  عورت  ایلف  زہرہ   قان دیمر  کا کہنا  ہے کہ  "  ایردوان     کو اب  یہ   بے عزتی کی جانے والی ایک شخصیت  کے روپ  میں دھار  چکے ہیں،  یہ ان کے اب ایک   ابدی دشمن کی حیثیت  حاصل کر گیا ہے۔ ایردوان   کی   یورپ  میں کوئی جگہ  نہیں۔"

ڈر اشپیگل    کا یہ سر ورق  اس لحاظ سے بھی  باعث حیرت ہے کہ  اس جریدے کی اشاعت  گولن  تنظیم    کی طرف سے ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے صرف دو ماہ بعد   عمل میں آئی  جس   کا مفہوم تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ  جیسے جرمن  جریدہ، اس بغاوت کی ناکامی پر  خفاہے اور اگر یہ کامیاب ہو جاتی تو اس جریدے نے  اُس کی  شان میں قصیدے پڑھنا شروع  کر دینے تھے اور  اسے جمہوریت      کے فروغ  کا سر  چشمہ قرار دیتے ہوئے  اپنی تمام   اعلی    صحافتی  اوصاف کو  جمع کرتےہوئے دنیا کو  بتانا اپنا فرض سمجھنا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت   اور جمہوری طرز حکومت در حقیقت ایک ہی سکے کے دو  رخ  ہیں۔

  اس کے باوجود یورپ میں بعض   بردبار اور اعتدال پسند سیاست دان بھی موجود ہیں جنہوں نے   جمہوریت پسندی ،آزادی  اور قانون کی بالا دستی کو اپنا نصب العین مانتےہوئے  دیگر عالمی مسائل  کو اپنی توجہ کا محور بنا رکھا ہے  جن کے تصفیہ طلب حل کےلیے  وہ دیگر ممالک کے ہمراہ تعاون  کے خواہاں  ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں  جو   یورپ میں  غیر ملکی تارکین  وطن   کو اپنی بے جا دشمنی کا نشانہ بناتےہوئے سستی سیاست اور شہرت کے پیچھے بھاگنا  بے عزتی تصور کرتے ہیں ۔یہ وہ عناصر ہیں جو کہ  پناہ گزینوں  کے اس سیلاب کو  ایک حقیقت   قبول کرتےہوئے اس مسئلے کے سیاسی و اخلاقی حل کےلیے کوشاں ہیں اور ترکی کو اپنا دشمن   نہیں بلکہ  ایک  اشتراکی ملک  مانتے ہوئے صدر ایردوان یا ترکی  کے خلاف سازشوں میں  شامل نہیں  ہیں۔

  یہ وہ افراد ہیں جو کہ یورپ   کے سیاسی   موقع پرستوں  کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بر عکس   دنیا کی بہتری   اور  اپنے خطے  کے تشخص  کے تحفظ میں پیش پیش ہیں حتی  گزشتہ نصف صدی کے بد ترین   پناہ گزینوں کے اس سیلاب   کا سامنا کرنے پر اُس نے جو  پالیسیاں  اپنا رکھی ہیں اس پر اُن کا سر شرم سے جھک بھی گیا ہے جسے ختم  کرنے اور ترکی کے خلاف   مصروف عمل دہشت گرد اور سازشی ٹولوں کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض  سمجھ رہے ہیں جبکہ  ان افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ تمام تر     ترک مخالف برائیوں  اور سیاسی چالوں کے باوجود   یورپ کی سلامتی میں   جو ملک  اہم کردار ادا کر سکتا ہے وہ ترکی ہی ہے ۔

 

 

 



متعللقہ خبریں